درجنوں طالبان کابل میں داخل ہونے پر کھلبلی

0

پشاور/ کابل (رپورٹ: محمد قاسم/ امت نیوز) درجنوں مسلح طالبان کابل میں داخل ہوگئے، جس پر افغان دارالحکومت میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اتوار کو شمالی اتحاد کے اہم رہنما احمد شاہ مسعود کی 17ویں برسی کے موقع پر اجتماع کیلئے نرمی کی گئی تھی، جس کا جنگجوؤں نے فائدہ اٹھایا اور بڑی تعداد میں کابل پہنچ کر پشتون آبادیوں میں گھل مل گئے اور ان میں سے بھی بیشتر کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے بتایا جاتا ہے۔ افغان حکام نے تصدیق کرتے ہوئے شہریوں کو محتاط رہنے کا الرٹ جاری کیا ہے، جبکہ الیکشن کے حوالے سے ہونے والا لویہ جرگہ بھی ملتوی کردیا گیا۔ عین اسی دوران جب طالبان شہر میں داخل ہوئے، احمد شاہ مسعود کی برسی پر نکالے جانے والے جلوس کے اندر خودکش بمبار نے دھماکہ کر دیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 8 افراد مارے گئے، جبکہ 35زخمی ہوئے۔ بعض اطلاعات میں مرنے والوں کی تعداد 10 بتائی گئی، تاہم رات گئے تک کسی نے بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ کابل میں ہی امریکی سفارتخانے پر راکٹ داغا گیا، جبکہ افغان اہلکاروں نے ایک حملہ ناکام بنانے اور حملہ آور کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب بغلان، ہرات، میدان وردک سمیت کئی علاقوں میں طالبان کی تابڑ توڑ کارروائیوں میں فوجیوں سمیت 100 سے زائد اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ بغلان میں 5 چوکیوں اور کئی دیہات پر بھی جنگجوؤں نے قبضہ کرلیا۔ افغان حکام نے 20، جبکہ مقامی ذرائع ابلاغ نے 40اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جن میں سے 20 بغلان، 11 میدان وردک اور 9 ہرات میں نشانہ بنے۔ کابل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اتوار کو احمد شاہ مسعود کی برسی کے اجتماع میں شرکت کیلئے کابل پہنچنے والے افراد کے ساتھ طالبان بڑی تعداد میں کابل شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، جن میں بھی زیادہ کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے بتایا جاتا ہے۔ سیاہ شیشوں والی گاڑیوں میں سوار ان مسلح لوگوں نے 1992میں قائم ہونے والے جہادی حکومت کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ ذرائع کے مطابق ان میں بیشتر حقانی نیٹ ورک کے جنگجو ہیں۔ چونکہ جلال الدین حقانی اس وقت جلاوطن جہادیوں کی حکومت میں شامل تھے۔ اس لئے انہیں پتہ تھا کہ احمد شاہ مسعود کی برسی پر یہ جھنڈا استعمال کر کے وہ کابل میں داخل ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب حکومت سمجھتی رہی کہ یہ شمالی اتحاد کے مقتول رہنما کے ساتھی ہیں۔ خودکش دھماکے کے بعد طالبان جنگجو آبادی میں گھل مل گئے۔ افغان وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ درجنوں مسلح لوگ کابل کے اندر تک پہنچ چکے ہیں۔ پولیس ترجمان حشمت استنکزئی کا کہنا ہے کہ ٹولیوں کی شکل میں مسلح افراد کابل میں داخل ہوئے جن میں سے بعض کو گرفتار کرلیا ہے۔ افغان حکومت نے شہریوں کیلئے الرٹ بھی جاری کیا ہے کہ وہ محتاط رہیں۔اطلاع پھیلنے کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس کی فضا ہے اور انہیں بڑے حملے کا خدشہ ستا رہا ہے۔ اسد اللہ وحیدی نامی شہری نے ‘‘امت’’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں یہ لوگ کون ہیں اگر یہ احمد شاہ مسعود کے ساتھی تھے تو انہیں پکڑا کیوں نہیں گیا۔ کابل سے پولیس بھی غائب ہوگئی ہے۔ شہریوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کابل پولیس کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ افغان دارالحکومت میں اتوار کو اسی طرح شدید فائرنگ ہوئی جیسا 1992میں ہوئی تھی۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ براہ راست مذاکرات کیلئے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے درمیان ایک امریکی شرط پر اختلاف ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ انخلا کی صورت میں طالبان کابل پر حملہ نہ کرنے کی ضمانت دیں، جبکہ حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر اس کیلئے تیار نہیں، ان کا مؤقف ہے کہ کابل پر قبضے کے بغیر بننے والی حکومت قانونی نہیں کہلائے گی۔ اس لئے طالبان کو افغان دارالحکومت پر لازمی طور پر کنٹرول حاصل کرنا ہوگا اور کابل میں داخل ہونے کا مقصد امریکہ کو اپنی شرائط پر مذاکرات کیلئے مجبور کرنا ہے۔ احمد شاہ مسعود کی برسی پر نکالے گئے جلوس میں شریک عینی شاہدین نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ اس کی آواز دور تک سنی گئی، 7افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے، جبکہ جلوس میں شامل گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ افغان میڈیا کی رپورٹس کے مطابق دھماکے سے قبل جلوس میں شامل احمد شاہ مسعود کے حامیوں نے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے اندھا دھند ہوائی فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 13افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ادھر صوبہ وردک میں طالبان کے حملے میں 11اہلکار ہلاک ہوگئے۔ صوبائی گورنر کے ترجمان عبدالرحمان نے بتایا کہ دائی میرداد ضلع کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر طالبان نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ضلعی پولیس چیف یونس حسینی سمیت 11اہلکار ہلاک ہوگئے۔ آخری اطلاعات تک علاقے میں لڑائی جاری تھی اور طالبان نے جن کی تعداد 350بتائی جاتی ہے، 5چوکیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ افغان حکام نے تصدیق کی ہر چوکی میں 5 سے 10اہلکار تعینات تھے، تاہم یہ نہیں بتایا کہ اہلکار ہلاک ہوگئے یا انہیں طالبان نے گرفتار کرلیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ لڑائی میں 52 اہلکار مارے گئے اور 45 زخمی ہوئے، جبکہ 9 پولیس اہلکار مغربی صوبہ ہرات کے ضلع اوبے میں نشانہ بنے ہیں۔ افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق بغلان میں بھی طالبان کے حملے میں 20 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے، تاہم طالبان نے 60اہلکار مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جنگجوؤں نے متعدد دیہات اور 13 چوکیوں پر قبضہ کرلیا ہے، جن میں سے 5 فوج کی ہیں۔ حملے کے بعد امریکی طیاروں نے شین ڈنڈ اڈے سے جوابی حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 3 طالبان شہید اور5 زخمی ہوگئے۔ دریں اثنا کابل میں صدر اشرف غنی نے امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے جنرل روشن دل کو دارالحکومت کا نیا سیکورٹی چیف مقرر کر دیا ہے۔ وزارت داخلہ سے جاری بیان کے مطابق جنرل روشن دل کی تقرری وزیر داخلہ ویس احمد برمک کی سفارش پر کی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More