آخری حصہ
تحقیق کی ابتدا سارہ نے ایک ایسے سینئر سماجی کارکن سے ملاقات کے ذریعے کی، جو بلا تفریق ملک و مذہب سارے انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح و بہبود کا داعی تھا۔ اس ملاقات کے بعد سارہ کو احساس ہوا کہ انصاف، آزادی اور احترام انسانیت آفاقی اقدار ہیں، جن کی دوسرے مذاہب سے بڑھ کر اسلام دعوت وترغیب دیتا ہے۔ یہ ان کیلئے ایک بڑا انکشاف تھا، جسے وہ آسانی سے قبول نہیں کر سکتی تھیں۔
انہوں نے ایک اسلامک ریسرچ سینٹر سے رابطہ کر کے قرآن مجید کا ترجمہ حاصل کیا اور اس کا مطالعہ کرنے لگیں۔ پہلے تو قرآن کے اسلوب و انداز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا، پھر اس کتاب میں کائنات، انسان اور زندگی کے بارے میں بیان کردہ ناقابل تردید حقائق نیز بندے اور خالق کے رشتے پر جو روشنی ڈالی گئی ہے، ایسی جامع تفصیل انہیں اس سے قبل کسی کتاب، کسی فلسفے اور کسی مفکر و مصنف کی تھیوری میں نظر نہیں آئی تھی۔ وہ بے اختیار یہ سوچنے لگیں کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔ اس انقلابی کتاب ہدایت نے سارہ کے اندر گویا ایک بھونچال سا برپا کر دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ قرآن نے اپنی تعلیمات کا مخاطب براہ راست انسان اور اس کی روح کو بنایا ہے۔ انہوں نے قرآن میں بیان کردہ عورت کے حقوق کا مقابلہ دوسرے ادیان و مذاہب سے کیا، تو اس میں بھی اسلام کو سب سے بڑھ کر پایا، پھر سارہ نے حضور اکرمؐ کے فرامین ، آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی مبارک زندگیوں کو دیکھا تو قرآنی ہدایات کا کامل و مکمل نمونہ اور عکس جمیل نظر آیا، جب کہ دوسرے ادیان و مذاہب کے ’’بڑے‘‘ انہیں صرف ’’گفتارکے غازی‘‘ معلوم ہوئے۔
آخرکار وہ لمحہ آگیا جب سارہ نے فیصلہ کرلیا کہ وہ جس سکون کیلئے بیتاب ہیں، وہ صرف اسلام قبول کرکے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کی داخلی بے تابیوں اور اضطراب کا علاج صرف ایمان سے ہو سکتا ہے اور ان کے مسائل کا حل مہم جوئی میں نہیں عملی مسلمان بننے میں ہے۔ سارہ کوبر اب اسلامی زندگی سے زیادہ دیر دور بھی نہیں رہ سکتی تھیں، انہوں نے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان مرد سے نکاح کرلیا۔ قبول اسلام کے بعد سارہ نے شرعی حجاب کا اہتمام کرنا شروع کیا۔
وہ اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
’’میں بڑی خوش تھی کہ ان آنکھوں میں اب تعجب اور دوری کے آثار تھے، جو پہلے مجھ کو ایسے دیکھتے تھے، جیسے شکاری اپنے شکار کو اور باز ننھی چڑیا کو۔ حجاب نے میرے کندھوں کے ایک بڑے بوجھ کو ہلکا کر دیا اور مجھے ایک خاص طرح کی غلامی اور ذلت سے نکال دیا تھا۔ اب دوسروں کے دلوں کو لبھانے کیلئے میں گھنٹوں میک اپ نہیں کرتی تھی۔ اب میں اس غلامی سے آزاد تھی۔ ابھی تک میرا پردہ یہ تھا کہ صرف ہاتھ اور چہرے کو چھوڑ کر میرا پورا جسم ڈھکا ہوتا، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں چہرہ بھی ڈھکنا چاہتی ہوں، اس لیے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ میرے رب کو زیادہ راضی کرنے والا عمل ہوگا، انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی، وہ مجھے ایک دکان پر لے گئے، جہاں میں نے ایک عربی برقعہ خریدا اور مکمل شرعی پردہ کرنے لگی۔
آج مجھے اپنے فحش لباس کو اتار کر اور مغرب کی دلربا طرز زندگی کو چھوڑ کر اپنے خالق کی معرفت و بندگی والی ایک باوقار زندگی کو اختیار کرنے سے جو مسرت و اطمینان کا احساس ہوا ہے، میں اس کی کوئی مثال نہیں دے سکتی۔ میری وہ سہیلیاں جو میرے ساتھ حقوق نسواں کے محاظ پر مصروف کار تھیں، مجھے ڈراتی تھیں کہ اسلام قبول کرکے تم ایک عضو معطل بن کر رہ جاؤ گی، مگر یہ ان کی کم فہمی یا اسلام کے بارے میں غلط سوچ تھی، اب میں بھی عورتوں کے حقوق کی حامی و داعی ہوں، جو مسلم عورتوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنی ایمانی ذمہ داریوں کو ادا کریں، اپنے شوہروں کی ایک اچھا مسلمان بننے میں مدد کریں، اپنے بچوں کو اس طرح تربیت دیں کہ وہ استقامت کے ساتھ دین پر جم کر اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کیلئے مینارہ نور بن جائیں۔‘‘
’’مجھے اپنے اسلام قبول کرنے اور حجاب پہننے کے فیصلے پر کوئی ندامت نہیں۔ میں نے فلوریڈا کے جنوبی ساحل پر تیراکی کے لباس اور مغرب کی گلیمرانہ زندگی کو اس لئے چھوڑا کہ میں اپنے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی گزاروں اور انسانوں میں ایک انسان کی حیثیت سے رہوں۔ یہ وجہ ہے کہ میں نے حجاب کا انتخاب کیا۔ میں مرتے دم تک اپنے حجاب کے حق کا دفاع کرتی رہوں گی۔ آج حجاب خواتین کی آزادی کا جدید نشان ہے۔‘‘
Prev Post
Next Post