کراچی(رپورٹ:محمد نعمان اشرف)سانحہ بلدیہ کےمتاثرہ خاندان 6 سال گزرجانے کے باوجود انصاف سے محروم ہیں،متاثرین کا کہنا ہے کہ شہدا کے اہلخانہ کی کفالت کے لیئے جمع ہونے والا فنڈ بھی متحدہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر کے دہشت گرد کھا گئے،نوکری اور پلاٹ کا وعدہ بھی محض اعلان کی حد تک محدود رہا۔متاثرین نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار ملزمان رحمان بھولا اور حماد صدیقی سمیت دیگر ملزمان کو بھی بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلایا جائے۔ ’’امت‘‘ کو اورنگی ٹاؤن غازی آباد سیکٹر ساڑھے گیارہ کے رہائشی محمد ارمان نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں میرا چھوٹا بھائی 17سالہ محمد فرحان اور 21سالہ چھوٹی بہن رقیہ پروین شہید ہوئے۔فرحان 2سال سے مذکورہ فیکٹری میں ملازمت کر رہا تھا جب کہ رقیہ کو محض ایک ماہ گزرا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ سانحہ والے روز میں گھر پر تھا ، علاقہ مکینوں نے مجھے فیکٹری میں آگ کی اطلاع دی ، میں نے خیریت دریافت کرنے کے لئے دونوں کو فون کیا لیکن رابطہ نہ ہوسکا،میں فیکٹری پہنچا تو دیکھا کہ آگ نے فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔باہر موجود کسی شخص کو آ گے جانے کی اجازت دی جارہی تھی نہ آگ پر قابو پانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے تھے ۔محمد ارمان نے بتایا کہ فیکٹری کے باہر سیکڑوں لوگوں کے ساتھ 2ٹینکر ڈرائیورز اپنی گاڑیوں کے ساتھ موجود تھے۔انہوں نے پیشکش کی کہ پھنسے ملازمین کو باہر نکالنے کے لئے ٹینکرز کے ذریعے فیکٹری کی دیوار توڑدی جائے ، تاہم کچھ دیر بعد ان ڈرائیوروں کو وہاں سے غائب کر دیا گیا جب کہ ان کے ٹینکر صبح تک وہیں کھڑے رہے۔ارمان نے کہا کہ معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہے ۔انہوں نے بتایاکہ متاثرین وہاں شور مچاتے رہے کہ فائربریگیڈ کو فون کیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا‘انہوں نے سوال کیا کہ جب فیکٹری مالکان کو بھتے کی پرچی موصول ہوئی تو انہوں نے اعلیٰ حکام کو کیوں آگاہ نہیں کیااور سابق گورنر فائربریگیڈ طلب کرنے کے بجائے الطاف حسین کو فون کیوں کرتے رہے؟ انہوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ دونوں سے بھی تفتیش کی جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کی کفالت کے لئے امدادی رقم کا اعلان کیا گیا تھا اور 6 سال گزرنے کے بعد محض 7لاکھ روپے دئے گئے۔جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ مجھےجماعت اسلامی کی طرف سے امدادی رقم ملی۔سانحہ میں شہید ہونے والے انوار حسین کے والد محمد اکرم نے بتایا کہ میرے 19سالہ بیٹے کو فیکٹری میں ملازمت شروع کئے محض 2ماہ کا عرصہ ہوا تھا ۔ بیٹے نے اپنا پاسپورٹ بنا رکھا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ بیرون ملک ملازمت کر کے گھر والوں کی کفالت کرے۔انہوں نے بتایا کہ سانحہ والے روز انوار حسین مجھے کہہ کر گیا تھا کہ آج مجھے تنخواہ ملنی ہے جس کے بعد میں یہ ملازمت چھوڑ دوں گا ، لیکن 6 سال پہلے فیکٹری کے لئے نکلنے والا میرا بیٹا پھر کبھی واپس لوٹ کر گھر نہ آیاجس کے ذمہ دار فیکٹری مالکان ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ فیکٹری مالکان بھی دہشت گردوں کے ساتھ اس جرم میں شریک ہیں ،انہیں بھی گرفتار کر کے بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلایا جائے ۔ بلدیہ فیکٹری کے ایک اور متاثرہ اسرار احمد نے بتایا کہ میرا 24سالہ بیٹا ذیشان احمد مذکورہ فیکٹری میں 8سال سے ملازمت کر رہا تھا۔سانحہ کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ رقم سے 4لاکھ روپے دیئے گئے اس کے علاوہ سندھ ویلفیئر فنڈ کی جانب سے 5لاکھ روپے کی امداد دی گئی ۔انہوں نے بتایا کہ سانحہ کے بعد متحدہ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے ملازمت اور پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔محمد جاوید نے بتایا کہ میرا 34سالہ بیٹا محمد فاروق 16سال سے فیکٹری میں ملازمت کر رہا تھا۔حادثے والے روز ٹی وی پر چلنے والی خبر کے ذریعے فیکٹری میں آگ لگنے کا علم ہوا ، جب میں جائے وقوعہ پر پہنچا تو فیکٹری مکمل طور پر جل چکی تھی۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کے لئے امدادی رقم کے ساتھ پلاٹ اور فیملی کے ایک فرد کے لئے نوکری کا اعلان کیا گیا تھا تاہم 6 سال کے عرصے میں صرف 12لاکھ روپے کی رقم امداد کے نام پر ملی۔ شہید 23سالہ محمد فیضان کے والد محمد طارق نے بتایا کہ فیضان 4بچوں میں سب سے بڑا تھا۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے گھر کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر تھی۔ حکومت کی جانب سے امداد کا اعلان تو کیا گیا تاہم وہ اب تک امداد سے محروم ہیں ۔اس حوالے سے پائلر کاکہنا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کو ہرماہ پنشن کی مد میں 7ہزار500روپے کی ادائیگی شروع کردی گئی اور 20 ماہ کی پنشن یکمشت ادا کی گئی ہے۔