حکمراں نابینا بڑھیا کی خدمت کرتے

0

ایک دفعہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ چند صحابہ کرامؓ کے ساتھ کسی بستی کی طرف جا رہے تھے۔ ایک بوڑھی خاتون راستہ میں ملیں، آپ نے انہیں سلام کیا۔ وہ باتیں کرنے لگیں۔ حضرت عمرؓ بڑی توجہ سے سنتے رہے پھر کہا کہ مجھے کچھ نصیحت کرو۔ خاتون نے بلاہچکچاہٹ نصیحتوں کا دفتر کھول دیا اور کہا کہ ’’اے عمر! جب میں نے تم کو عکاظ کے بازار میں دیکھا، اس وقت تم عمیر کہلاتے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے، پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری کہ تم عمر کہلانے لگے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ امیر المومنین کہے جانے لگے۔ ذرا رعیت کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے، اس کے لیے دور کی آدمی بھی قریب کے رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے۔‘‘ اس پر حضرت عمرؓ کے ایک رفیق نے کہا کہ ’’اے خاتون! تو نے امیر المومنین کے ساتھ بہت زبان درازی کی۔‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’انہیں کہنے دو۔ جانتے بھی ہو یہ کون ہیں؟ ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی۔ عمر کو بدرجہ اولیٰ سننی چاہئے۔ اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتیں تو میں کھڑا رہتا۔ بس نمازوں کے اوقات میں ان سے معذرت کر لیتا۔ یہ حضرت خولہؓ ہیں، جن کے بارے میں ظہار کے مسئلے پر سورۃ مجادلہ نازل ہوئی۔‘‘
حضرت عمرؓ خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کا پیکر تھے۔ بیوائوں، یتیموں، محتاجوں، معذوروں، لاوارثوں، مصیبت زدوں کی تکلیف سے آپ بے تاب ہو جاتے تھے۔ جب تک ان کی تکلیف دور نہ کر لیتے، چین نہ آتا۔ بیوائوں اور مجاہدین کے اہل و عیال کی ذاتی طور پر بہت خبر گیری کرتے۔ خود مشکیں بھر بھر کر کنویں سے پانی اور بازار سے سودا سلف لا دیتے۔ محاذ جنگ سے مجاہدین کے خط آتے تو خود ان کے گھر پہنچاتے۔ اگر گھر میں کوئی لکھنے والا نہ ہوتا تو خود ان کی دہلیز پر بیٹھ کر مجاہدین کی بیویوں کی طرف سے ان کے شوہروں کو خط لکھ دیتے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو مدینہ تو ایک طرف، عراق تک کی بیواؤں کو ایسا بنا دوں گا کہ میرے بعد کسی کی محتاج نہ رہیں۔ مدینہ کے باہر ایک اندھی محتاج بڑھیا رہتی تھی، اس کا کام کاج خود کر آتے اور ضرورت کی اشیا بہم پہنچاتے۔
ایک موقع پر مدینہ کے بازار میں ایک نوجوان عورت نے آپ کو سر راہ روک لیا اور کہا کہ ’’امیر المومنین! میں بیوہ ہوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے۔ جن کے لیے کھانے کپڑے کا کوئی سامان نہیں۔ میں حضرت خفافؓ بن ایماء انصاری کی بیٹی ہوں، جو حدیبیہ میں رسول اکرمؐ کے ساتھ تھے۔‘‘ حضرت فاروق اعظمؓ نے بیوہ کی درد بھری داستان سنی۔ پھر اسے تھوڑی دیر رکنے کو کہا۔ واپس آئے تو بیت المال سے آٹا، کھجوریں، گھی، کپڑا اور دوسری اشیائے ضرورت لے کر اونٹ پر لادیں اور اس کے پاس لے گئے اور کہا ’’اے میری بیٹی! یہ اونٹ اور سامان رسد تیرے لیے ہے۔ اسے لے جا، آئندہ تمام ضروری سامان تیرے گھر پہنچ جایا کرے گا۔‘‘
سفر شام سے واپسی پر راستے سے ذرا ہٹ کر ایک خیمہ دیکھا۔ اونٹ روک کر وہاں گئے، ایک عمر رسیدہ نابینا عورت موجود تھی۔ ان سے پوچھا کہ خلیفہ کے متعلق کچھ جانتی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ’’اتنا معلوم ہے کہ وہ شام سے واپس چل پڑا ہے۔ خدا اس کا کبھی بھلا نہ کرے۔ اس سے مجھے کبھی کچھ نہیں ملا۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ تم اتنی دور غیر آباد سی جگہ رہتی ہو۔ خلیفہ کو کیا معلوم کہ تمہاری ضروریات کیا ہیں؟ بڑھیا نے کہا کہ اگر وہ میری خبر گیری نہیں کر سکتا تو خلیفہ کیوں بنا؟ حضرت عمرؓ رو پڑے۔ اس کی ضرورت معلوم کر کے سب کچھ فراہم کر دیا اور آئندہ کے لیے بھی باقاعدہ فراہمی کا انتظام کر دیا۔ عورت خوش ہو گئی اور کہا کہ خلیفہ ہونے کے لائق تم ہو نہ کہ عمرؓ۔
ایک دفعہ ایک بوڑھے اور کمزور ذمی کو بھیک مانگتے دیکھا۔ وجہ پوچھی تو اس نے کہا مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں۔ جزیہ کی ادائیگی کے لیے بھیک مانگتا ہوں۔ حضرت عمرؓ بہت متاثر ہوئے۔ اسے اپنے ساتھ گھر لائے، کھلایا پلایا، بیت المال سے اس کی ضروریات پوری کیں اور اس کا روزینہ مقرر کر دیا۔ فرمایا یہ ٹھیک نہیں کہ اہل ذمہ کو ان کے بڑھاپے اور کمزوری میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے۔(بحوالہ: عشرہ مبشرہ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More