معارف القرآن

0

معارف و مسائل
فَاسْجُدُوْا … یعنی پچھلی آیات جو غور کرنے والے انسان کو عبرت و موعظت کا سبق دیتی ہیں، اس کا مقتضی یہ ہے کہ تم سب خدا کے سامنے خشوع و تواضع کے ساتھ جھکو اور سجدہ کرو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔
صحیح بخاری میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ سورئہ نجم کی اس آیت پر رسول اقدسؐ نے سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب مسلمانوں اور مشرکوں نے اور تمام جن و انس نے سجدہ کیا اور بخاری و مسلم ہی کی دوسری حدیث میں حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے سورئہ نجم کی تلاوت فرمائی اور اس میں سجدہ تلاوت ادا کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین مجلس (مؤمنین و مشرکین) نے سجدہ کیا بجز ایک قریشی بوڑھے کے جس نے زمین سے ایک مٹھی خاک اٹھا کر پیشانی سے لگا لی اور کہا کہ مجھے یہی کافی ہے، حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ پھر میں نے اس شخص کو حالت کفر میں مقتول پڑا ہوا دیکھا ہے، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت آنحضرتؐ کے اتباع میں مسلمانوں کو تو سجدہ کرنا تھا ہی، جو مشرکین اس وقت حاضر تھے، حق تعالیٰ نے ان پر بھی کچھ ایسی حالت غالب کر دی کہ سب سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے، گو اس وقت ان کا سجدہ بوجہ کفر کے کچھ ثواب نہ رکھتا تھا، مگر وہ بھی اپنا ایک اثر یہ چھوڑ گیا کہ بعد میں ان سب کو اسلام و ایمان کی توفیق ہوگئی، صرف ایک آدمی کفر پر مرا جس نے سجدہ سے گریز کیا تھا۔
اور صحیحین کی ایک حدیث میں جو حضرت زید بن ثابتؓ کی روایت سے ہے یہ مذکور ہے کہ انہوں نے آنحضرتؐ کے سامنے سورئہ نجم پوری پڑھی، مگر آپؐ نے سجدہ نہیں کیا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سجدہ واجب یا لازم نہیں، کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپؐ اس وقت باوضو نہ ہوں یا کوئی دوسرا عذر سجدہ کرنے سے مانع ہو، ایسی حالت میں فوری سجدہ کرنا ضروری نہیں، بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔ تمت سورۃ النجم۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More