لاہور، لاہور ہے!

0

لاہور لاہور ہے۔ زندہ دلوں کا شہر، جہاں ہر آنے والے کو اپنی پسند کا کھانا بھی مل جاتا ہے اور ہم خیال و ہم مزاج لوگوں کی محفل بھی مل جاتی ہے۔ گو بڑھتی ہوئی آبادی اور کاروں کی ریل پیل نے شہر کے حسن و دلکشی کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ تاہم قدیم آبادیوں میں گزری ہوئی تہذیب کے نمونے اب بھی پائے جاتے ہیں۔ لحاظ و مروت کا کلی طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔ کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں شاہی مسجد کے وسیع احاطے میں کوئی نہ کوئی بزرگ، حاضری سے بے پروا، اپنی دھن میں ہیر وارث شاہ پڑھتے دیکھے جاتے تھے۔ عقب میں شاہی محلے کا اپنا چلن تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ امراء اپنے بچوں کو تہذیب اور شائستگی سکھانے کے لیے یہاں بھیجا کرتے تھے۔ اب نہ وہ شرفاء اور امراء رہے، نہ اس علاقے کی وہ روایات رہیں۔ مگر لاہور، لاہور ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک بھر کے بڑے ادیب، شاعر، صاحب علم حضرات اس شہر کو اپنا مسکن بناتے تھے۔ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کا دائمی مسکن یہی شہر ہے، حضرت احمد ندیم قاسمی یہاں مدفون ہیں۔ حضرت مولانا صلاح الدین (ادب لطیف والے) کی آخری آرام گاہ یہی ہے۔ جناب حمید نظامی اور مجید نظامی یہاں آسودہ خاک ہیں۔ اپنے زمانے کے مزاح گو حاجی لق لق اور سینکڑوں نامور اور گمنام شخصیتوں نے اس شہر کو اعزاز بخشا۔
ایام جوانی میں ہر ماہ تنخواہ سے دس روپے بچاتا اور یوں سال کے آخر میں ڈیڑھ دو سو روپے لے کر عازم لاہور ہوتا۔ کیا زمانہ تھا۔ لاہور میں ہوٹل کے کمرے کا کرایہ پانچ روپے تھا۔ بہت آرام سے پانچ سات دن گزر جاتے۔ دن میں ایک چکر شاہی مسجد کا ضرور ہوتا۔ ایک تو شاہی مسجد مسلمانوں کے شاندار ماضی کی داستان کہتی سنائی دیتی۔ دوسرے حضرت علامہ اقبالؒ کے مزار پر حاضری ہو جاتی۔ ولیوں کی سی شان اور بادشاہی میں فقیروں سی آن بان رکھنے والے کے وسیلے سے دعا کا موقعہ نصیب ہوتا۔
ایک زمانہ تھا سرکار دو عالمؐ کے معراج پر جانے کے حوالے سے کفار کا یہ اعتراض تھا کہ خلاء پار نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت اس ولی کامل نے کیا خوب کہا اور اب دنیا اعتراف کرتی ہے۔ رب کی کائنات میں سوائے زندگی اور موت پر قدرت کے انسان کی سعی عمل سے سب کچھ ممکن ہے۔
سبق ملا ہے معراج مصطفیٰؐ سے مجھےکہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوںبہرحال داستان سے ہٹ کر ایک خاص طویل عرصے سے لاہور جانے کی آرزو تھی۔ خدا تعالیٰ سلامت رکھے جناب مجیب الرحمان شامی، جناب سجاد میر، برادرم رؤف طاہر، محترم سلیمان غنی، عزیزم حامد ریاض ڈوگر کو کہ ان سے ملاقات گزرے ہوئے وقت کی بہت سی یادوں کو تازہ کر گئی۔ موجودہ زمانے میں صحافت مادر پدر آزادی کا نام ہے۔ کتاب سے رشتہ ناطہ توڑ کر لکھنے اور لکھنے سے زیادہ بولنے کا زمانہ ہے۔ قاری یا ناظر نہ آپ کا قلم پکڑ سکتا، نہ زبان پر تالہ ڈال سکتا ہے۔ آپ کو کچھ آتا ہے یا نہیں آتا، بس زبان چلانے کا فن آنا ضروری ہے۔ اسی طرح کے ایک خود ساختہ دانشور اسی طرح کے ایک پروگرام میں محو گفتگو تھے۔ تذکرہ حضرت قائد اعظم ؒ کا تھا۔ دانشور صاحب نے کہا کہ حضرت قائد اعظمؒ کی کابینہ میں دو ہندو وزیر تھے۔ برادرم حفیظ اللہ نیازی سے استفسار کیا کہ ایک تو جگندر ناتھ منڈل تھے، دوسرا ہندو وزیر کون تھا؟ دانشور نے فرمایا: آئی آئی چنگیز! اس پر ایک قہقہہ پڑا، حضرت حیران ہوئے، برادرم حفیظ اللہ نیازی نے کہا: میاں وہ تو مسلمان تھے، ان کا نام ابراہیم اسمعیل چندریگر تھا۔ ان دانشور صاحب کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔ کسی دوست نے سوال کیا کہ لاہور میں ایسی مخلوق بھی پائی جاتی ہے؟ محفل میں شریک ایک دوسرے صاحب نے فرمایا: جی ہاں! یہ مخلوق لاہور کو نظربد سے بچانے کے لئے ہے۔ بہرحال لاہور میں چار دن کا قیام روح کو تازہ کر گیا۔ ایک اور بہتری کی صورت یہ ہوئی کہ جس عزیز کے یہاں قیام تھا، ان کے نزدیک اخبار پڑھنا دل و دماغ کو الجھنوں میں ڈالنا ہے۔ سو اخبار کا اس گھر میں داخلہ ممنوع ہے۔ سو ہم بھی چند دن اخبارات سے محفوظ رہے۔ لاہور کا ذکر ہو اور مولانا ظفر علی خانؒ کا تذکرہ نہ ہو؟ حضرت مولانا ظفر علی خانؒ اپنے زمانے کے ایک منفرد انسان تھے۔ نظم و نثر آپؒ کے در کی لونڈی تھی۔ انگریز کا زمانہ تھا۔ پریس پر قدغنیں بہت تھیں۔ ہر مہینہ دو مہینے بعد ضمانت ضبط ہو جاتی تھی۔ مجبوراً اخبار کی اشاعت میں تعطل آتا۔ ضمانت کی رقم جمع ہوتی تو اخبار نکلتا۔ شنید ہے کہ ایک دفعہ ضمانت کی رقم جمع کرانے میں تاخیر ہوئی۔ مولانا اخبار کے دفتر کے باہر کرسی پر بیٹھے تھے۔ ایک گھڑ سوار آیا اور استفسار کیا کہ آپ ظفر علی خان ہو؟ یہ تین ہزار روپے ضمانت جمع کر دو اور اخبار جاری کرو۔ ہندو اخبار ’’پرتاب‘‘ اور ’’ملاپ‘‘ بھی تھے، جن سے تنہا ظفر علی خانؒ نمٹتے تھے۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More