قسط نمبر 49
معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
میرے ڈبے میں پہنچنے سے پہلے ایک جوڑا (مرد و زن) پہلے ہی اپنی اپنی سیٹوں پر قبضہ کر چکے تھے۔ جلد ہی باقی دو صاحبان بھی پہنچ گئے۔ ہم سب مسافر حضرات نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے سے تعارف ہوجائے کہ سفر لمبا ہے، یہ اجنبیوں کی طرح نہیں کٹ سکے گا۔ خیر صاحب تعارف کا مرحلہ بھی سر ہوگیا۔ بدقسمتی سے میں صرف ایک صاحب کا نام و پتہ اپنی ڈائری میں نوٹ کر سکا بلکہ کروا سکا، وہ بھی اس طرح سے کہ صاحب نے میرا نام و پتہ نوٹ کیا تھا۔ یہ صاحب تھے بندر عباس میڈیکل یونیورسٹی کے ایک نوجوان طالب علم جناب وحدت گنجی زادہ۔ میں نے اپنا تعارف بطور ایک پاکستانی زمین شناس یا جیولوجسٹ کرایا تھا اور یہ معلوم کرکے سب نے اطمینان و خوشی کا اظہار کیا تھا۔ تعارف کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد بات چیت کا سلسلہ مجلس کی واحد خاتون نے مجھے مخاطب کرکے شروع کیا۔ بولیں کہ تمہاری یہاں موجودگی کا ہمیں پہلے ہی سے علم تھا۔ وہ اس طرح کہ جب ہم دونوں (وہ اور ان کے شوہر) بکنگ کرانے ریلوے ٹریول ایجنسی پر گئے اور اس ڈبے میں بکنگ کرانی چاہی تو بکنگ کنندہ خاتون نے ہمیں ’خبردار‘ کیا کہ اس ڈبے میں ایک پاکستانی کی بکنگ پہلے ہی ہو چکی ہے۔ اس خاتون نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پہلے تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ پتہ نہیں وہ پاکستانی کس قماش کا پاکستانی ہو۔ مگر پھر ہم نے یہ کہہ کر ہمت کرلی کہ چلو اس سفر میں یہ تجربہ بھی ہوجائے۔ خاتون نے مزید کہا کہ ’’مگر تم تو ہمیں بڑے ٹھیک ٹھاک آدمی لگتے ہو، بلکہ تم سے مل کر تو ہمیں ایک خوشگوار تعجب نے گھیر لیا ہے‘‘۔ ان خاتون کے شوہر اور دیگر حضرات نے بھی اس خاتون کے بیان کی تائید کی اور مجھے بتایا کہ ہمارے خیالات بھی کسی حد تک ایسے ہی تھے، مگر اب تم سے مل کر ہم مطمئن ہیں۔ میں نے ان سب کا اس خوش اخلاقی و خوش اندیشی کے لئے شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ہم خاصے بے تکلف ہوگئے، تاآنکہ ایک خاصا خطرناک مرحلہ (میرے لئے) آپہنچا۔
ہوا یہ کہ اوپر کی برتھ والے ایک صاحب اپنی ہلکے اسٹیل والی سیڑھی کو کھولنے کی کوشش کررہے تھے جو شاید بند کرتے وقت کسی کی غلطی سے پھنس گئی تھی۔ ان صاحب نے بہت زور مارا مگر وہ نہیں کھلی۔ ایک دوسرے صاحب نے بھی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ میں نے یہ دیکھ کر ان صاحب سے کہا کہ جس انداز سے آپ اپنی پوری طاقت سے زور لگا رہے ہیں اس طرح اگر یہ کھل بھی گئی تو اغلب گمان ہے کہ ردعمل کے طور پر آپ کو شدید چوٹ آئے گی۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ پھر؟ میں نے عرض کی کہ اگر اجازت دیں تو میں اپنی تکنیک آزمالوں۔ شاید آسانی سے ہی کھل جائے۔ وہ صاحب بولے کہ ضرور۔ اور وہ سیڑھی میری طرف بڑھا کر اس سے علیحدہ ہوگئے۔ میں نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ سیڑھی کو تو میں نے اس وقت ہاتھ نہ لگایا، بلکہ اپنا سوٹ کیس کھولا اور اس میں سے اپنا جیولوجیکل ہیمر (ارضیاتی ہتھوڑا) نکالا اور اس کے نوک والے لمبے سرے کو بطور لیور استعمال کرتے ہوئے مسئلے والی جگہ کے اندر ڈال کر ذرا سا اوپر اٹھایا تو بفضل تعالیٰ سیڑھی کھل گئی۔ سب نے خوشی سے آفریں کہا۔ مگر اگلے ہی لمحے ان میں سے ہر ایک سوائے خاتون کے کبھی میرے ہتھوڑے کو دیکھتا اور کبھی مجھے گھورتا۔ جلد ہی ان میں کچھ حضرات کی بھنویں تن گئیں اور وہ مجھے کوئی تخریب کار سمجھ کر سخت غصے کے عالم میں گھورنے لگے۔ میں اس صورت حال سے خاصا پریشان تھا کہ پتہ نہیں اب حالات کیا رخ اختیار کریں کہ یکایک خاتون مسافر کی گرجدار آواز کیبن میں گونجی۔ وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہی تھی کہ تم سب لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کیوں اس غریب کو اس طرح گھورتے ہو؟ کیا تمہیں یاد نہیں کہ اس نے اپنے تعارف میں ہمیں بتایا تھا کہ وہ ایک زمین شناس ہے اور کیا تمہیں نہیں معلوم کہ کسی زمین شناس کا سب سے اہم اور کارگر آلہ اس کا ہتھوڑا ہوتا ہے! یہ سننا تھا کہ جیسے سب کو ہوش آگیا۔ تنی ہوئی بھنویں یکایک نیچے آگئیں اور سب کے چہرے پر ایک دفعہ پھر مسکراہٹ واپس آگئی۔ میں نے اس خاتون کا بہت بہت شکریہ ادا کیا کہ وہ نیک بخت ایک خطرناک مرحلے میں میری مدد کو پہنچی تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے مرد ہمراہیوں نے پہلے تو لاتوں اور گھونسوں سے میری خوب تواضع کرنی تھی اور پھر مجھے ریلوے پولیس کے حوالے کردینا تھا۔ اور اگر ایرانی پولیس کی تکنیک بھی ویسی ہی ہیں جیسی کہ پاکستانی پولیس کی، خصوصاً پنجاب پولیس کی، تو پھر میں اپنی بے گناہی ثابت ہونے سے پہلے ہی اللہ کو پیارا ہوچکا ہوتا کہ: ’’تا تریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود‘‘۔
اسی مضمون پر شیخ سعدی شیرازی نے بھی اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’گلستان‘‘ میں ایک لومڑی کی نہایت دلچسپ مگر سبق آموز حکایت تحریر فرمائی ہے کہ لوگوں نے اسے دیکھا کہ بے تحاشا دوڑی جاتی ہے۔ کچھ صاحبان نے اسے روک کر دریافت کیا کہ بی بی کیوں بھاگی جاتی ہو، جبکہ باقی جنگل کے جانور سکون سے ہیں۔ لومڑی بولی کہ جناب اصل بات یہ ہے کہ مجھے بڑے بااعتماد ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بادشاہ وقت اپنے استعمال کے لئے جنگل کے اونٹوں کو گرفتار کروا رہا ہے اور اس کے گماشتے ہر طرف جنگل میں اونٹوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ نیک بخت تو کہاں اور اونٹ کہاں، تو کیوں پریشان ہوتی ہے؟ لومڑی بیچاری بولی کہ عقلمندو، تم نے یہ بات کیوں نہیں سوچی کہ اگر کسی نے مجھے اونٹ کا بچہ سمجھ کر پکڑ لیا تو جب تک یہ بات ثابت ہوگی کہ میں اونٹ کا بچہ نہیں ہوں بلکہ ایک لومڑی ہوں جب تک تو میں قید و بند کی صعوبتیں نہ برداشت کرتے ہوئے مرچکی ہوں گی۔ اس لئے عقلمندی یہ ہے کہ بندہ پیش بینی اور حتی الامکان احتیاط سے کام لے۔
بہرحال مندرجہ بالا مشکل مرحلہ سر ہونے کے بعد ہم لوگوں کو خاص طور پر مجھ حیقر کو اپنی نارمل حالت میں آنے میں کچھ وقت لگا، تاآنکہ میں نے ’شد آنچہ شد‘ کہہ کر اس پر مٹی ڈال دی اور ایک دفعہ پھر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ گپ شپ میں مشغول ہوگیا۔ میرے ساتھی اس بات پر خوش تھے کہ میں ان سے فارسی میں بات چیت کرسکتا تھا۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ ایک عام پڑھا لکھا پاکستانی، ایران، فارسی اور ایرانی کلچر کے متعلق کیا خیالات رکھتا ہے۔ میں نے انہیں خاصی تفصیل سے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ پر، پاکستان کی قومی زبان پر، پاکستان کے لوگوں اور ان کے کلچر پر ایران کی تاریخ، ایرانی قومی زبان فارسی، ایران کے لوگوں اور ان کے کلچر کی اتنی گہری چھاپ ہے کہ ہم اس سے جان چھڑا ہی نہیں سکتے۔ صدیوں تک ہمارے ملک کی سرکاری زبان فارسی رہی ہے اور اب بھی حال یہ ہے کہ ہماری قومی زبان اردو کی تشکیل میں تقریباً نصف حصہ فارسی کا ہے اور باقی نصف میں عربی، ترکی، ہندی، سنسکرت اور پنجابی زبانیں شامل ہیں۔ ہمارے اکثر قدیمی شعرا بیک وقت اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ ان شعرا میں علامہ اقبال اور مرزا غالب بھی شامل ہیں۔ شیخ سعدی، حافظ شیرازی اور فردوسی کو پاکستانی لوگ اتنی ہی اچھی طرح جانتے اور پہنچانتے ہیں جتنا کہ وہ ایران میں جانے جاتے ہیں۔ شیخ سعدی کی ’’گلستان‘‘ و ’’بوستان‘‘معہ اردو ترجمہ اور شرح اپنے نئے ایڈیشنوں کے ساتھ آج بھی پاکستانی کتاب گھروں میں عام دستیاب ہیں۔ ایران کے مدرسوں میں تو شاید آج کل ’’گلستان و ’’بوستان’‘‘ متروک قرار دے دی گئی ہوں گی، مگر پاکستانی دینی مدرسوں میں آج بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اردو تحاریر میں اگر فارسی تراکیب شامل نہ ہوں اور فارسی اشعار کی چاشنی سے انہیں تر نہ کیا گیا ہو تو وہ تحاریر اردو زبان کا اعلیٰ ذوق رکھنے والے حلقوں میں مقبول نہیں ہوتیں۔ (جاری ہے)
Next Post