احمد نجیب زادے
افغانستان پر فوج کشی اور لاکھوں بے گناہ افغانوں کی موت کے ذمہ دار امریکا نے ڈھٹائی اور بے شرمی کی تمام حدوں کو پارکرتے ہوئے جنگی جرائم کی عالمی عدالت کو افغانستان میں تفتیش سے باز رہنے کے لئے سنگین دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس ’’ناجائز عدالت‘‘ کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا تو اس کو شدید قسم کی نا انصافی تصور کیا جائے گا۔ امریکی حکومت نہ صرف جنگی جرائم کے عالمی ٹریبونل کا مکمل بائیکاٹ کرے گی، بلکہ اس سلسلے میں ٹربیونل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا اور اس عالمی ٹربیونل کو امریکی حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی تمام قسم کی امداد کو بند کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت کے ججوں کو امریکا میں مقدمات میں فٹ کیا جائے گا اور ان کے خلاف مزید سخت کارروائیاں بھی عمل میں لائی جاسکتی ہیں، جس کی تفصیل ابھی بیان نہیں کی جاسکی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور قانون و سماجی انصاف کی بالا دستی کیلئے کارگزار اور متحرک اداروں نے عالمی جنگی جرائم ٹربیونل کو امریکی دھمکیوں کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی بیان ان تمام لوگوں کی کھلی توہین ہے جو جنگی جرائم کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی سرکردہ رہنما لز ایونسن نے کہا ہے کہ امریکی بیان متاثرہ افراد کی بے عزتی کے مترادف ہے۔ شام، برما اور افغانستان سمیت متعدد ممالک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے تناظر میں تو آئی سی سی/ جنگی جرائم ٹربیونل کی تو مزید ضرورت بڑھتی محسوس ہورہی ہے۔ اطالوی جریدے لا ری پبلیکا کے مطابق 2017ء کے نومبر میں جنگی جرائم ٹربیونل کی خاتون افسر استغاثہ فاتو بینی سودا نے تسلیم کیا تھا کہ اس بات کی قابل قدر بنیاد موجود ہے کہ افغانستان سمیت شام اور برما میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ عالمی الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات و جرائد نے امریکی دھمکی کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے جس کا اعادہ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خاص نمائندے اور مختلف ممالک میں سابق سفیر اور امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر خاص جان بولٹن نے ایک تازہ بیان میں زور دیا ہے کہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت افغانستان میں امریکا کی سترہ سالہ جنگ کے دوران کسی قسم کے جنگی جرائم کی جانچ یا تفتیش کا حق نہیں رکھتی اور اگر اس ضمن میں عالمی ٹربیونل کے ججوں نے امریکا کے موقف کے مطابق اپنی ’’حد‘‘سے تجاوز کیا تو یقیناً امریکی حکومت ان ججوں اور ان سے تعاون کرنے والے تمام امریکی اور غیر امریکی باشندوں کو سخت سزا دے گی۔ ان کے خلاف انفرادی کارروائیوں سمیت مقدمات کے اندراج کرائے گا اور ان مقدمات کی سماعت اور ا ن میں پیشی کیلئے ججوں اور ان سے تعاون کرنے والے تمام افراد کو گرفتار کرلے گا اور ان کو امریکا میں قید کرکے سزائیں دے گا۔ سان فرانسسکو کرونیکل کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم جنگی جرائم کی عالمی عدالت کو امریکا سمیت اسرائیل اور اتحادی ممالک کیلئے سنگین خطرہ قرار دیا ہے جو افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج، مسلح جنگجوئوں اور افغان حکومتی فورسز سمیت امریکی اتحادی شمالی اتحاد کے جنرل رشید دوستم کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا ارادہ رکھتی ہے۔ عالمی وار کرائم عدالت کے ججوں اور اہلکاروں کو کھلی دھمکی دینے والے جان بولٹن کا کہنا تھا کہ اگر فوجداری عدالت نے کسی بھی امریکی یا اسرائیلی کو نشانہ بنایا تو امریکی ایڈمنسٹریشن خاموش نہیں بیٹھے گی اور عالمی ٹربیونل کے ججوں اور تحقیقات میں شامل اہلکاروں کو نہیں بخشا جائے گا۔ ان کی مالی معاونت روکی جائے گی، ان کو گرفتار کیا جائے گا اور ان کو سزائیں دی جائیں گی۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ایک تقریب میں خطاب کے دوران اس دھمکی کی وجوہات کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سال گزشتہ میں وارکرائم ٹربیونل کی جانب سے امریکا کو ایک درخواست موصول ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس اور مسلح افواج کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات میں معاونت فراہم کی جائے اور بالخصوص گرفتاری کے بعد زیر حراست مشتبہ افغان قیدیوں کے ساتھ امریکی انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کے تشدد اور اموات کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جائیں۔ اگر چہ کہ امریکا نے جنگی جرائم کی عالمی عدالت کو اس ضمن میں اپنے (عدم تعاون پر مبنی) موقف سے مطلع کردیا گیا تھا۔ لیکن امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ہالینڈ، دی ہیگ میں موجود وار کرائم کورٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف، افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا کام کسی بھی وقت شروع کرسکتی ہے جس کے بعد جان بولٹن نے اس قسم کی تحقیقات کو رکوانے کیلئے سنگین دھمکیوں کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن امریکا کی جانب سے گرفتاریوں اور سنگین نوعیت کی دھمکیوں پر جنگی جرائم کی عالمی عدالت کے ججوں اور اعلیٰ اہلکاروں کی جانب سے کوئی واضح بیان یا موقف سامنے نہیں آسکا ہے۔ البتہ ایک بیان میں جنگی جرائم کی عالمی عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وار کرائم ٹربیونل کو 123 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اسی عدالت کو سلامتی کونسل کی جانب سے ماضی میں جنگی جرائم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے مقرر کیا جاچکا ہے۔