دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن عوام

0

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اٹھائیس اگست کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ وزیر اعظم منتخب ہونے اور حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے دو مرتبہ اپنے خطاب سے عوام کی بڑی تعداد کو متاثر کیا اور عالمی سطح پر بھی اس کی زبردست پذیرائی ہوئی۔ انہوں نے حکومتی اخراجات کم کرنے اور کفایت شعاری سے کام لے کر ترقیاتی اور فلاحی پروگراموں پر سرکاری رقوم خرچ کرنے کے جو وعدے کئے، انہیں بہت سراہا گیا۔ ان تمام وعدوں کی تعریف و ستائس اس بنیاد پر ہوئی کہ وطن عزیز سخت مالی بحران سے دوچار ہے اور نئی حکومت کو خالی خزانہ اور مسائل کا کوہ گراں ورثے میں ملا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران عوام کو سبز باغ دکھانا ہماری سیاست کا دیرینہ معمول ہے اور اس سے کوئی جماعت یا امیدوار مستثنیٰ نہیں رہتا۔ حکومتی ذمے داریاں ملنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل آسان نہیں ہے۔ معروضی حقائق سامنے آنے پر نئی حکومت یوٹرن لے کر اور عوام کو نت نئے فریب میں مبتلا کر کے بہلانے کی کوشش کرتی ہے۔ نئے وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی تقریر سے کئی حلقوں نے محسوس کیا کہ اس کے الفاظ دل سے نکل رہے ہیں اور شاید وہ اپنے وعدوں اور دعوئوں کی تکمیل میں کامیاب ہو جائیں۔ تاہم ان کے زبردست حامی بھی یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہو رہے ہیں کہ تین ہفتوں کے دوران ہی تحریک انصاف کی حکومت قدم قدم پر یوٹرن کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ نئی حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی نامزدگی سے قبل ہی یہ اعلان اور دعویٰ کر دیا تھا کہ مزید قرضوں اور امداد کیلئے ان کی حکومت آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گی۔ اپنے قومی مسائل کے بھرپور استعمال کے علاوہ دوست ملکوں سے تعاون حاصل کر کے اقتصادی بحران پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن وزیر خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ معاشی مسائل حل کرنے کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول سمیت کئی آپشنز زیر غور ہیں۔ فضول خرچیوں سے بچنے کا دعویٰ کرنے والی موجودہ حکومت چونکہ واضح اکثریت سے اقتدار میں نہیں آئی ہے، بلکہ اسے مخلوط حکومت کی تشکیل کیلئے قومی اسمبلی میں ایک دو نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں سے بھی تعاون حاصل کرنا پڑا ہے، لہٰذا انہیں خوش اور اپنے ساتھ رکھنے کیلئے بلیک میلنگ کا شکار ہو کر ان کے ارکان کو قومی اور صوبائی کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی بڑی تعداد کا قومی خزانے پر بوجھ بننا لازمی ہے اور انہیں کرپشن سے روکنا بھی آسان نہ ہو گا ’’لہٰذا قیاس کن ز گلستانِ من بہارِ مرا‘‘ کے مصداق نئی حکومت کے ابتدائی اقدامات ہی سے اس کی آئندہ حکمت عملی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نئے شامل کئے جانے والے چھ وزراء کے بعد وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد تیس تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں انیس وفاقی وزیر، چار مشیر، چار وزرائے مملکت اور تین معاونین خصوصی شامل ہیں۔ کئی محکمے اب بھی وزیر اعظم عمران خان کے پاس ہیں، جو سیاسی حلیفوں کو خوش کرنے کیلئے آئندہ تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔
وفاق کے بعد آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے، جس کی کابینہ کا حجم بدھ کو پینتالیس تک پہنچ گیا تھا۔ اس میں پینتیس وزیروں کے علاوہ پانچ مشیر اور پانچ معاونین خصوصی لئے گئے ہیں۔ گویا ایک صوبے کی کابینہ کا حجم وفاقی کابینہ سے بھی ڈیڑھ گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ سودے بازی کیلئے مزید کیا کچھ ہو سکتا ہے، اس بارے میں فی الحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن وہی بات کہ ’’قیاس کن ……‘‘ نئی وفاقی کابینہ نے سال 2018-19ء کے بجٹ پر نظر ثانی کر کے ترمیم شدہ یا نیا بجٹ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں ٹیکسوں میں ردوبدل کر کے قومی خزانے میں اضافے کی کئی تجاویز شامل ہیں۔ بارہ لاکھ سالانہ یا ایک لاکھ روپے ماہانہ تک آمدنی والے شہریوں کو انکم ٹیکس جو چھوٹ ملی تھی، اسے کم کر کے آٹھ لاکھ روپے سالانہ تک لانے کی تجویز نے ملازم پیشہ افراد میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ موجودہ حالات میں متوسط خاندان کے اخراجات ایک لاکھ روپے ماہانہ میں بھی پورے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں رائج ٹیکس کلچر کے تحت صرف ملازمین ہی اپنی آمدنی پر پورا اور بروقت ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہیں مزید زیر بار کرنا کسی فلاحی ریاست کا کام نہیں ہو سکتا۔ قومی آمدنی بڑھانے کیلئے سب سے پہلے تو وعدے کے مطابق بڑے بڑے لٹیروں سے اندرون و بیرون ملک جمع ہونے والی ان کی رقوم واپس لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد حکومتی اخراجات کم کرنے کے اعلان کی پابندی کی جائے تو ٹیکسوں کے نئے بوجھ ڈالنے اور سرکاری اشیاء و خدمات کو مہنگا کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ یہ کام ہر حکومت کو مشکل اور اپنی مجبوری و مصلحت کے خلاف لگتا ہے۔ اس لئے نئی حکومت بھی ٹیکسوں اور گرانی میں اضافے کے ذریعے عافیت تلاش کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے تین ماہ پورے ہونے سے پہلے تنقید سے گریز کا مشورہ دیا ہے، لیکن انہیں اس عرصے میں غلط رخ پر جانے سے روکنا بھی ضروری ہے اور آزاد ذرائع ابلاغ اپنی یہ ذمے داری پوری کرتے رہیں گے۔ حکومت کو تو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ اشتہارات کے اربوں روپے کی ادائیگی نہ کر کے ان سے وابستہ لاکھوں افراد کو تنخواہوں سے محروم کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں بجلی کے نرخوں میں چار روپے فی یونٹ اضافے کی تجویز غریب صارفین کے سروں پر ننگی تلوار کی طرح لٹک رہی ہے۔ اس کو فی الحال مصلحتاً ٹالنے کی کوشش ہو رہی ہے، لیکن امکان ہے کہ یہ تلوار جلد ہی ان پر گر کر رہے گی۔ حکومت کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی سرکاری خزانے کو بھرنے کا سب سے آسان اور کامیاب نسخہ ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ گویا زمینی حقائق سامنے آتے ہی عمران خان کی حکومت کے ہاتھ پیر پھولنے لگے ہیں، وہ کفایت شعاری اور حکومتی اخراجات میں کمی کی سطحی و نمائشی اعلانات واقدامات کے ساتھ شہریوں پر نئے انداز سے بوجھ ڈال کر بھاری بھر کم وفاقی و صوبائی حکومتوں کے خرچے پورے کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس نے پچھلی حکومتوں کے انجام سے سبق حاصل نہ کیا تو اس کا انجام ان سے بھی برا ہو سکتا ہے۔ فی الحال عوام عمران خان کی جانب سے تین ماہ کا موقع دینے کی اپیل پر دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں، تاوقتیکہ نئی حکومت کا اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ جائے۔ اس بار اگر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More