جیل کی سختیوں سے نواز شریف کا وزن پندرہ کلو گرگیا

0

امت رپورٹ
جیل کی سختیوں سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا وزن پندرہ کلو گر گیا ہے۔ جبکہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وزن میں بھی بالترتیب چھ اور آٹھ کلو کی کمی ہوئی ہے۔ جاتی امرا میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نواز شریف کی حالت دیکھ کر کئی بزرگ رشتہ دار خواتین و مرد رو پڑے۔ ان میں نواز شریف کے بعض سسرالی عزیز شامل ہیں اور یہ سب وہ ہیں، جو اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے نہیں جا سکے تھے اور پیرول پر رہائی کے بعد انہوں نے پہلی بار نواز شریف کو دیکھا۔ شریف فیملی سے انتہائی قریب ذرائع نے بتایا کہ جاتی امرا میں نواز شریف اور مریم نواز کی آمد پر نہایت جذباتی مناظر تھے اور ماحول تاحال سوگوار ہے۔ جاتی امرا کے جس حصے کو سب جیل قرار دیا گیا ہے، وہ نواز شریف کی رہائش گاہ ہے۔ سابق وزیر اعظم، ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو اسی جگہ پر رکھا گیا ہے۔ باہر عملہ تعینات ہے۔ جس کی اجازت کے بغیر کوئی ان تینوں سے ملاقات نہیں کر سکتا۔ البتہ خاندان کے لوگوں کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ منگل کی رات جاتی امرا پہنچنے پر نواز شریف تعزیت کے لیے آنے والے اپنے عزیزوں سے پرسہ لیتے رہے، تاہم بدھ کے روز طبیعت خراب ہونے پر انہوں نے زیادہ وقت اپنی رہائش گاہ کے ایک کمرے میں آرام کر کے گزارا۔ شریف فیملی سے قریب ذرائع نے بتایا کہ جاتی امرا میں میاں محمد شریف، نواز شریف، شہباز شریف اور عباس شریف سب کے الگ الگ گھر ہیں۔ تاہم میاں محمد شریف کی رحلت کے بعد ان کے اہلیہ بیگم شمیم نے اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کے ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا۔ لہٰذا میاں شریف کا گھر عموماً خالی پڑا رہتا ہے۔ اور اکثر مہمانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح شہباز شریف نے بھی اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹائون میں رکھی ہوئی ہے۔ جبکہ عباس شریف مرحوم کی اولاد اب بھی جاتی امرا میں واقع اپنے گھر میں مقیم ہے۔ جاتی امرا میں ایک گھر مریم نواز کے لیے بھی بنایا گیا۔ جیل جانے سے قبل وہ اپنا زیادہ وقت اسی رہائش گاہ میں گزارتی تھیں۔ میاں محمد شریف نے امرتسر (بھارت) میں اپنے آبائی قصبے کے نام پر تمام بیٹوں کی مشترکہ رہائش گاہ کا نام جاتی امرا رکھا تھا۔
اسلام آباد میں موجود ایک سینئر لیگی عہدیدار کے بقول حکومت خوف زدہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ کہیں سیاسی شو نہ بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پیرول کے تحت چند روزہ رہائی کے دوران بھی نواز شریف اور مریم نواز پر جیل جیسی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اس کا مقصد کارکنوں کو ان دونوں سے دور رکھنا ہے۔ عہدیدار کے مطابق بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں ہزاروں لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔ پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں سے بھی کارکنوں کی بڑی تعداد لاہور پہنچنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ کارکنان بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں شرکت کے علاوہ نواز شریف اور مریم نواز سے ملنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ لیکن جب اس طرح کی خبریں ان تک پہنچیں گی کہ میاں صاحب کو ملاقاتوں کی آزادی نہیں دی گئی، اور اس کے لیے تعینات عملے کی اجازت درکار ہے، تو بیشتر کارکنان مایوس ہو کر جاتی امرا پہنچنے کا ارادہ ترک کر سکتے ہیں۔ تاہم عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ بیگم کلثوم کا نماز جنازہ لاہور کے بڑے اجتماعات میں سے ایک ہو گا۔ عہدیدار کے مطابق کسی قریبی عزیز کی موت پر قیدی کی پیرول پر رہائی ہر پاکستانی شہری کا حق ہے۔ تاہم حکومت کا BEHAVE ایسا ہے، جیسے کوئی احسان کیا ہو۔ عہدیدار نے بتایا کہ بیگم کلثوم نواز کے انتقال کی خبر پہنچنے کے بعد اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جو 4 گھنٹے ملاقات ہوئی، اس طوالت کا سبب نواز شریف اور مریم نواز دونوں کی جانب سے حکومت کو پیرول پر رہائی کی درخواست دینے سے انکار تھا۔ نواز شریف کا مؤقف تھا کہ غیر قانونی اقدامات کرنے والی حکومت سے وہ کبھی بھی پے رول پر اپنی رہائی کی درخواست نہیں کریں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ خود یہ رعایت دے۔ نواز شریف کے اس مؤقف کی مریم نواز نے بھی تائید کی۔ تاہم طویل بحث و مباحثے کے بعد شہباز شریف نے اپنی ایما پر اپنے خاندان کے ارکان کی پے رول پر رہائی کی درخواست لکھی اور دستخط کئے۔ جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
نواز شریف اور مریم نواز کے وزن میں کمی کے حوالے سے شریف خاندان کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل کی سخت گرمی اور حبس نے نہ صرف دونوں باپ بیٹی کے جسموں میں پانی کی کمی کر دی۔ بلکہ ان کی خوراک بھی نصف ہو گئی۔ بالخصوص جیل کے ابتدائی دن، تینوں کے لیے بڑے کٹھن تھے۔ اس وقت موسم بھی آج کے مقابلے میں زیادہ گرم تھا۔ لہٰذا باپ بیٹی کی خوراک نصف اور پانی کی مقدار دگنی ہو گئی۔ ابتدائی تین ہفتوں میں ہی نواز شریف اور مریم نواز کا وزن گرنا شروع ہو گیا تھا۔ بیمار بیگم کلثوم نواز کی دوری سے پیدا ہونے والی ڈپریشن نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مشاہد اللہ خان اور نون لیگ کے اقلیتی رکن اسمبلی ڈاکٹر درشن رو دیئے تھے۔ بالخصوص مشاہداللہ خان کی ہچکیاں نہیں رک رہی تھیں۔ جس پر مریم نواز نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ تو بڑے بہادر آدمی ہیں۔ مشاہداللہ خان کراچی میں اپنے بیٹے کی انتخابی سرگرمیوں سے فارغ ہو کر الیکشن کے فوری بعد نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کے لیے پہلی بار اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔ ذرائع کے مطابق اب یہی کیفیت جاتی امرا میں نواز شریف اور مریم نواز کو قید سے رہائی کے بعد پہلی بار دیکھنے والوں کی ہے۔ ان میں زیادہ تر کو کیپٹن (ر) صفدر کے وزن میں کمی پر حیرانی ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بطور سابق فوجی کیپٹن (ر) صفدر جسمانی طور پر کافی مضبوط تھے۔ تاہم اسیری کے دوران دل کے آپریشن اور دو اسسٹنٹ ڈالے جانے نے بھی کیپٹن (ر) صفدر کی صحت کو خاصا متاثر کیا ہے۔
جاتی امرا میں موجود ذرائع نے بتایا کہ پے رول پر رہا ہونے کے بعد بدھ کی شام تک نواز شریف اور مریم نواز نے صرف ایک بار نہایت کم مقدار میں کھانا کھایا۔ زیادہ وقت آرام اور گھر کے لوگوں کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور مریم نواز کو لیگی سینیٹر چوہدری تنویر اور مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے گھر سے کھانا پہنچایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More