قارئین کرام میں نے افغانستان اور ایران دونوں ممالک میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ جو فارسی بولنے والے لوگ ہیں، وہ فارسی شاعروں کے ان اشعار کو پسند نہیں کرتے یا وہ ان کو اپیل نہیں کرتے کہ جو ہمیں کرتے ہیں اور جو اشعار ان لوگوں کو اپیل کرتے ہیں وہ ہمیں اپیل نہیں کرتے۔ اکثر حالات میں آخر الذکر اشعار کے مطالب زیادہ گہرائی والے ہوتے ہیں۔ پڑھنے میں اکثر وہ اتنے رواں نہیں ہوتے اور سمجھنے میں خاصے ’ثقیل‘ ہوتے ہیں۔
میں جب تک مذکورہ بالا بزرگ شعرا کے اشعار ان کو سناتا رہا وہ سب لوگ بڑے شوق اور استعجاب سے سنتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر محو حیرت ہیں کہ ایک پاکستانی کو جو اردو ادب یا فارسی ادب کا طالب علم بھی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق شعبہ زمین شناسی سے ہے، کس طرح فارسی شعرا کے اور وہ بھی ایرانی شعرا کے اتنے اشعار معہ پس منظر یاد ہیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ گو تمہاری ادائیگی اور الفاظ کا تلفظ ہم سے خاصا مختلف ہے، مگر اس کے باوجود ہمیں بہت اچھا لگا۔ اغلب گمان ہے کہ یہ بات انہوں نے ازراہ شرافت و مہمان نوازی ہی کہی ہوگی۔ میں نے ان سے بھی اپنے پسندیدہ اشعار سنانے کی درخواست کی، مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس نشست میں تو ہم صرف تم ہی سے فارسی کلام سنیں گے۔ ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس نشست کی روداد میں نے خاصی طویل کردی ہے اور خاصی سلیسں اردو میں لکھ دی ہے۔ جو کچھ میں نے اپنی ’فارسی‘ میں کہا تھا وہ قدرے مختصر اور خاصا ٹوٹا پھوٹا تھا کہ مجھے فارسی پر اتنا عبور نہیں ہے، بس گھما پھرا کم کم از کم اپنا مافی الضمیر ادا کر لیتا ہوں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ چونکہ اس وقت تک ایران میں مجھے خاصا عرصہ ہوگیا تھا اور ہر وقت فارسی ہی بولنی پڑتی تھی، اس لئے میری ’فارسی‘ والی ’زبان‘ میں خاصی روانی آگئی تھی اور بعض اوقات اپنی نویں اور دسویں کلاس میں پڑھے ہوئے وہ الفاظ یا وہ اشعار بھی یکایک زبان پر آجاتے تھے کہ جن کو میں بالکل بھول چکا تھا اور سالہا سال سے زبان پر نہ آئے تھے۔
اس روز مذکورہ بالا شعری نشست کے اور کوئی قابل تحریر بات نہ ہوئی سوائے اس کے کہ گاہے گاہے میں اپنے شش تختہ کمپارٹمنٹ سے نکل کر بغل میں واقع ریفریشمنٹ کیبن سے چائے کا ایک گلاس اور کبھی اس کے ساتھ چند بسکٹ بھی لے کر سُستی اتار لیتا تھا۔ دوپہر کا کھانا تو ہم سب نے مل کر اپنے کیبن میں ہی کھایا، البتہ رات کا کھانا میں نے بڑے مناسب پیسوں میں ٹرین سے منسلک ڈائننگ کار میں سپرد معدہ کیا۔ دوسرے روز یعنی آٹھ مارچ 2002ء کا ناشتہ میں نے علی الصبح ٹرین کی ڈائننگ کار میں کیا اور اس کے بعد کیبن میں ایک مرتبہ پھر ایک ادبی محفل جمی۔ اس محفل میں مجھے اچھی طرح نہیں یاد کہ سوائے وحدت گنجی زادہ صاحب کے دیگر شرکا، کا کیا حصہ تھا۔ اور گنجی زادہ صاحب کا بھی حصہ اس لئے یاد ہے کہ انہوں نے شیخ سعدی کے جو تین اشعار پڑھے ان کو گنجی زادہ صاحب سے میں نے اپنے روزنامچے (ڈائری) میں لکھوالیا تھا۔ اس نشست میں ہم جن شعرا کے کلام اور ان کی شخصیت کو زیر بحث لائے، وہ تھے شیخ سعدی، حافظ شیرازی، علامہ اقبال، مولانا عبدالرحمن جامی اور امیر خسرو۔
وحدت گنجی زادہ صاحب نے شیخ سعدی کے جو تین اشعار سنائے، وہ قارئین کی دلچسپی کے لئے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
-1 آنقدر درکشتی عشقت نشینم روز و شب
یا بہ ساحل می رسم یا غرق دریا می شوم
-2 گویند مگو سعدی اینقدر سخن از عشقش
می گویم و بعد از من گویند بدور انہا
-3 دوستان عیب کنندم کہ چرادل بتو بستم
باید اول بتو گفتن کہ چنیں خوب چرایی
جہاں تک مجھے یاد ہے (میرا روزنامچہ اس بابت خاموش ہے) میں نے اس نشست میں حضرت امیر خسرو کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے تھے، جو کہ پاکستان و ہندوستان کے قوالوں کے و نیز قوالی کے شائقین کے بڑے دل پسند اشعار ہیں۔
نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائیکہ من بودم
پری پیکر نگارے سر و قدے لالہ رخسارے
سراپا آفت جاں بود شب جائیکہ من بودم
خدا خود میر مجلس بود ندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم
بندر عباس نزدیک آیا تو ہمیں اپنی ادبی محفل بھی برخاست کرنی پڑی۔ ہماری گاڑی صحیح وقت پر صبح ساڑھے نو بجے بندر عباس کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئی۔ میں نے اپنے سفر کے ساتھیوں کو فرداً فرداً خدا حافظ کہا کہ سب بڑے اچھے اور اجنبی نواز لوگ تھے، بالخصوص وہ خاتون جسے اللہ تعالیٰ نے میرے مشکل وقت میں میری مدد کو بھیج دیا تھا۔
ایک پک اپ کے ڈرائیور صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے اپنی پٹی پٹائی درخواست کی کہ بھائی مجھے ایک اچھے مگر سستے مہمان پذیر میں پہنچا دیجیے۔ وہ صاحب بولے کہ میں آپ کو دو عدد مہمان پذیر دکھائے دیتا ہوں، آپ ان میں سے جو چاہیں خود پسند کرلیں۔ پہلے میں سستے والے مہمان پذیر میں جاؤں گا۔ اگر آپ کو پسند ہو تو وہیں قیام کیجئے، وگرنہ درمیانے یا اچھے قسم کے مہمان پذیر لے چلوں گا۔ میں نے کہا کہ بسم اللہ۔ سستے والے مہمان پذیر کو کبوتروں کی کابک کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ بیت الخلاف انتہائی مختصر اور گندے۔ وہاں موجود لوگ بھی بڑے مختلف اور عجیب و غریب تھے۔ مجھے تو وہ اسمگلروں یا بردہ فروشوں کی کوئی آماجگاہ لگی۔ میں فوراً باہر آیا اور پک اپ ڈرائیور سے کہا کہ بھائی تو مجھے کہاں لے آیا؟ یہ مہمان پذیر ہے یا کبوتروں کا کابک۔ وہ صاحب بولے کہ کوئی بات نہیں۔ دوسرے مہمان پذیر پر چلتے ہیں۔ امید ہے وہ آپ کو پسند آئے گا اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دوسرا مہمان پذیر تھا: ’’ مہمان پذیر بلوار‘‘ اور اس کا پتہ تھا۔ جنب داد گستری بطرف ساحل۔
یہ ایک صاف ستھرا، کشادہ اور آراستہ کمروں والا مہمان پذیر تھا، جو ایک غیر شادی شدہ اور انتہائی شریف النفس خاتون کی ملکیت تھا اور وہی اس کی منیجر بھی تھیں۔ ان خاتون کے چہرے کے خدوخال اور گفتگو کے انداز سے صاف جھلکتا تھا کہ وہ کسی اعلیٰ اور دیندار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ مہمان پذیر کے ملازمین اکثر معمر تھے اور اس خاتون کا بڑا احترام کرتے تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ شاید اس کے والد کی کسی حادثاتی موت نے اس غریب پر یہ ذمہ داری ڈال دی تھی۔ خاتون کا نام تھا آنسہ احمدے۔ یہ مجھے مہمان پذیر چھوڑتے ہوئے اس وقت معلوم ہوا جب اس خاتون نے مجھے اپنا ذاتی وزیٹنگ کارڈ دیا۔
مجھے مہمان پذیر کا چار بیڈ والا کمرہ نمبر 8 صرف پچاس ہزار ریال یومیہ پر الاٹ کر دیا گیا۔ میں نے جلد جلد کمرے میں اپنا سامان سیٹ کیا، اپنا فیلڈ کٹ ساتھ لیا۔ مہمان پذیر والوں سے جزیرہ ہرمز جانے کے سلسلے میں ضروری معلومات حاصل کیں اور پھر بذریعہ ٹیکسی سیدھا ایسکلا یا Ferry Point پہنچ گیا، کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہرمز ایک آباد جزیرہ ہے۔ ہر وقت وہاں آنے جانے والی کشتیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس لئے وہاں کھانے پینے کی اشیا لاد کر لے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں ضروری عام اشیا دستیاب ہوں گی، اس لیے میں ایسکلے سے باہر ٹکٹ گھر سے چھ ہزار ریال کا موٹر بوٹ کا ٹکٹ خرید کر اور ایک پل عبور کرکے کشتی پر سوار ہوگیا اور کوئی کھانے پینے کی شے خرید کر نہ ساتھ رکھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post