ایک گمنام خط کا جواب

0

گزشتہ دنوں ایک خط روزنامہ امت کے پتے پر لکھا ہوا مجھے میرے بیٹے فرید اشرف نے لاکر دیا۔ یہ ایک گمنام خط ہے اور ایک خاتون کا ہے۔ نہ اس پر ان کا نام ہے اور نہ تاریخ ہے۔ مجھے ان کا خاتون ہونا کیسے معلوم ہوا؟ اس کی وجہ کئی برسوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ مجھے کئی سال سے اسی طرح گمنام اور بلا تاریخ خط لکھتی رہی ہیں اور میں ان کی تحریر لفافے پر لکھے ہوئے پتے سے بغیر لفافہ کھولے پہچان لیتا ہوں اور جب ان کا خط آتا ہے تو مجھے سخت پریشانی یہ ہوتی ہے کہ ہر خط میں تقریباً ایک ہی مضمون الفاظ بدل کر ہوتا ہے۔ تقریباً ہمیشہ چار صفحات پر مشتمل ہوتا ہے۔
ان کا موضوع یہ ہے کہ مقدس تحریروں مثلاً خدا تعالیٰ اور آنحضرتؐ کے پاک نام اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور پھر یہ ردی کی ٹوکری سے ہوتے ہوئے نعوذ باللہ سڑک پر بے حرمتی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اخبارات میں، میگزینوں میں ان پاک ناموں کی اشاعت سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موضوع کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کوئی مسلمان نہیں کرے گا۔ غالباً وہ اس طرح کے خطوط دوسرے لوگوں کو بھی بھیجتی ہوں گی۔ بلاشبہ ان کا یہ مشن نیک نیتی پر مبنی ہے، مگر ان کے خطوط کا مزاج اور لہجہ شروع میں ہمارے بزرگوں کے خلاف بہت جارحانہ، بلکہ جہالت کی حد تک گستاخانہ ہوتا تھا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ میرے روشن جھروکے کے مضامین پابندی سے پڑھتی ہیں۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ان کے گستاخانہ لہجے میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی اور اب کچھ عرصے سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ہمارے بزرگوں کی تصنیفات بھی پڑھتی ہیں اور ان کے طرز تحریر میں مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ حق تعالیٰ ان پر حق واضح فرما دے اور ہم پر بھی۔
مگر دین پر کام کرنے والوں کا یہ طریقہ بہت عام ہے کہ وہ اپنے موضوع کی صداقت کے جوش میں یکطرفہ سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے بعض سنگین غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ مثلاً یہ غلطی بہت عام ہے کہ ایک شخص ایک نیک موضوع لے کر اٹھتا ہے اور وہ نیک کام مستحب ہوتا ہے۔ یعنی واجب نہیں ہوتا۔ مگر وہ نیکی کے جوش میں بعض ایسے کام کر جاتا ہے، جو ناجائز یا حرام ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی پر بے جا تنقید کر دی، کوئی بہتان اس کے سر لگا دیا۔ یا اولیائے کرام کی شان میں گستاخی کر دی۔
اس کی چند مثالیں میں ان محترمہ کے خطوط کے حوالے سے عرض کرتا ہوں۔
-1 شروع میں ان کے خطوط جیسا کہ عرض کیا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور دوسرے بزرگوں کی شان میں حد درجہ گستاخانہ ہوتے تھے اور ان کی نسبت واعظوں سے سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے بہتان پر مشتمل ہوتے تھے۔ اس پر ظلم یہ کہ خط پر نہ اپنا پتہ، نہ تاریخ۔ اب ان کی غلط فہمی دور کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ راقم ان کے لیے ہدایت کی دعا کر کے فارغ ہو جاتا تھا۔
-2 ان خاتون کا ایک طریقہ یہ رہا کہ وہ اپنے خط میں کبھی ایک اور کبھی دو سادہ لفافے ٹکٹ لگا کر رکھ دیتی ہیں۔ ان پر بھی کوئی پتہ نہیں ہوتا ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ آپ اس موضوع پر کوئی تحریر لکھ کر یا میرا یہ خط ہی اپنے جاننے والے اہل علم کو بھیج دیں۔
-3 اب یہ سادہ لفافے ان کی امانت کے طور پر میرے پاس آگئے۔ میرا حال یہ ہے کہ گلستان جوہر میں جہاں میں رہتا ہوں، وہاں آس پاس کوئی ڈاک خانہ نہیں ہے۔ میں اپنی عمر کے چھیاسی ویں سال سے گزر رہا ہوں۔ میری ٹانگ میں لوہے کی راڈ پڑی ہوئی ہے۔ خود ڈرائیونگ نہیں کرتا۔ اب ان سے پوچھئے کہ میں ان سادہ لفافوں کی امانت کس طرح ادا کروں؟ اگر نہیں کرتا تو ضمیر بے چین کرتا ہے۔ چنانچہ کسی کو ہدیہ کر کے اس کا ثواب ان کو پہنچانے کی نیت کر لیتا ہوں۔
-4 خدا کا شکر کہ! راقم کی کئی سال سے یہ عادت ہے کہ اخبار میں چھپنے والی قرآنی آیات اور اللہ تعالیٰ کا اسم ذات اگر کسی شخص کے نام کا جزو بھی ہوتا ہے۔ مثلاً احسان اللہ، نقیب اللہ، سمیع اللہ وغیرہ آتا ہے تو پورے اخبار کو پڑھ کر ان کے تراشے الگ کرتا ہوں۔ اس کے لیے راقم نے ایک ڈبہ اپنے کمرے میں رکھا ہوا ہے۔ وہ بھر جاتا ہے تو پہلے بجلی کے ایک کھمبے پر ایک بکس لگا ہوتا تھا، جس پر ’’مقدس اوراق‘‘ لکھا ہوتا تھا، اس میں ڈال دیتا تھا۔ اب میرا پوتا، جو ماشاء اللہ عالم بھی ہے، سامنے ایک گڑھا کر کے تمام اوراق ایک تھیلی میں مضبوط بند کر کے دفنا دیتا ہے یا ایک گڑھا بنا کر جلا دیتا ہے۔ شہروں میں چونکہ کچی زمین بہت کم ملتی ہے۔ اس لیے دفنانا مشکل ہوتا ہے۔ جہاں قرآن کریم پریس میں چھپتے ہیں، وہاں قرآنی آیات پر مشتمل ردی کاغذ بہت ہوتے ہیں۔ ان کو ایک ڈرم میں رکھ کر جلا دیا جاتا ہے۔ اس کی فقہاء نے اجازت دی ہے۔ ویسے بھی اگر گڑھا گہرا نہ کھودا جائے تو آوارہ کتے زمین کو کھود بھی دیتے ہیں اور اکثر پیشاب بھی کرتے رہتے ہیں۔ (معاذ اللہ)
-5 راقم جب سندھ کی کابینہ میں وزیر مذہبی امور تھا۔ اس وقت میں نے اوقاف کے عملے کے ذمے یہ کام سپرد کیا تھا کہ مساجد میں مقدس اوراق جمع کرنے کے بکس لگائے جائیں اور ان کو جمع کر کے کسی گاڑی میں سمندر کے ساحل تک لے جایا جائے اور بوریوں میں بھر کر وہاں سے کشتی کے ذریعے گہرے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ اس پر عمل شروع ہو گیا، لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ڈیفنس وغیرہ کے لوگوں نے اطلاع دی کہ ساحل پر ہر طرف مقدس اوراق بکھرے ہوئے ہیں۔
راقم نے فوراً مذکورہ ساحلی علاقے کا دورہ کیا اور یہ دیکھ کر دل کانپ گیا کہ بہت دور دور تک قرآن کریم کے بوسیدہ صفحات ریت اور پانی میں ڈوبے ہوئے بکھرے پڑے ہیں اور سوکھے صفحات کو ہوائیں اڑاتی پھر رہی ہیں۔ پھر اوقاف کے عملے کو احکامات جاری کئے گئے کہ وہ ان اوراق کی بوریوں میں بھاری پتھر رکھ کر سمندر میں ڈالیں۔
2002ء میں صوبائی کابینہ تحلیل ہوگئی اور راقم کی وزارت بھی ختم ہوگئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے مقدس اوراق کی بے حرمتی کوئی نہیں کرنا چاہتا۔ روزنامہ امت میں پہلے صفحے پر قرآن کریم کی ایک آیت اور ایک حدیث کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔ اس کے نیچے روزانہ یہ تحریر شائع کی جاتی ہے۔
’’قرآنی آیات اور احادیث کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ازراہ کرم مقدس اوراق کی حرمت کا خیال رکھیں اور انہیں بے ادبی سے بچائیں۔‘‘
اسی حالیہ خط میں انہوں نے لکھا ہے: ’’ہم خط میں تسمیہ یعنی بسم اللہ لکھتے ہیں۔ بذریعہ ڈاک بھیجتے ہیں۔ ڈاک خانے میں تسمیہ والے خط جوتیوں کے فرش پر ڈالے جاتے ہیں۔ پھر بوریوں میں بھر کر ٹرک پر رکھتے ہیں اور ان بوریوں پر ملازم جوتیاں پہن کر بیٹھتا ہے اور گیس کا مریض اور بواسیر کا مریض بھی بیٹھتا ہے۔‘‘
یہ عرض کر دوں کہ مذکورہ خاتون کا یہ تازہ خط صرف تسمیہ ہی کے بارے میں ہے اور انہوں نے قرآن کریم میں مذکور حضرت سلیمانؑ کے اس خط سے استدلال کیا ہے، جو انہوں نے ملکہ سبا بلقیس کے نام لکھا ہے۔ اس میں حضرت سلیمانؑ نے پہلے فرمایا۔ (ترجمہ): یہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے ہے اور (پھر تسمیہ کے بعد) فرمایا کہ ’’میرے مقابلے میں بڑائی نہ دکھانا اور مسلمان بن کر میرے پاس آجائو۔‘‘
اس آیت کی بنیاد پر انہوں نے لکھا ہے کہ لوگ اپنے لیٹر پیڈ پر تسمیہ چھوٹا لکھتے ہیں اور اپنا یا اپنے ادارے کا نام بڑا لکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی خط میں انہوں نے راقم کے والد ماجد کی کتاب ’’گناہ بے لذت‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے۔ ’’صفحہ 30 پر مفتی شفیعؒ نے لکھا ہے کہ خط میں شاید 786 بے حرمتی سے بچنے کے لیے لکھتے ہیں۔‘‘ مفتی صاحب نے تسمیہ لکھنے کو بے حرمتی تسلیم کیا ہے۔ خیر یہ تو ایک طویل بحث ہے کہ خطوط میں، لیٹر پیڈ پر، یا رسالوں اور اخبارات میں تسمیہ لکھنے کے شرعی آداب کیا ہیں۔ یہ اس کا موقع نہیں ہے۔
میرے سوالات
میں ان محترمہ سے اب چند سوالات کرتا ہوں۔ پہلے یہ عرض کر دوں۔
-1 کہ انہوں نے اس تازہ خط میں ایک ستم یہ کیا ہے کہ اس میں لفافوں کے بجائے سو روپے کا نوٹ رکھ دیا ہے۔ اس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں لفافے خرید کر ان پر لوگوں کے پتے لکھ کر ان کا یہ خط پوسٹ کر دوں۔
-2 میں پوچھتا ہوں کہ مجھ بوڑھے اور ضعیف آدمی پر اس کام کا بوجھ آپ نے کیوں ڈالا؟ یہ نوٹ ابھی تک میری جیب میں ہے اور ایک امانت ہے۔ میں اس کا کیا کروں؟
-3 اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے تو اس کو اپنے نزدیک نیکی کا کام سمجھا ہو گا۔ مگر یہ ایذائے مسلم ہے، جو حرام ہے۔
-4 آپ کا مقدس اوراق کا جو مشن ہے، وہ آپ پر فرض نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ فرض کفایہ ہو گا۔ یعنی اور بھی لوگ یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کے لیے آپ نے ایک بوڑھے شخص کو اپنا ملازم کیوں سمجھ لیا ہے۔
-5 حقوق العباد جیسے اہم فریضے کو آپ نے ایک مستحب کام کے لیے کیوں ترک کر دیا۔
-6 میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ شریعت مقدسہ کا باقاعدہ مطالعہ کریں اور اپنے اس گستاخانہ طر ز کو چھوڑیں کہ اولیاء اور اہل علم کے نام اس طرح لیں، جیسے آپ اپنے ملازم کا نام لیتی ہیں۔
-7 آخر میں درخواست کرتا ہوں کہ براہ کرم آئندہ خط نہ لکھیں تو مجھ پر بڑا احسان ہو گا۔ اگر اس خط کا جواب دینا چاہیں تو جوابی لفافے پر اپنا پتہ لکھ کر بھیج سکتی ہیں۔ نام لکھنا ضروری نہیں۔ آپ کا سو روپے کا نوٹ میں نے کسی غریب کے لیے رکھ لیا ہے۔ اس کو دے کر اس کا ثواب آپ کو پہنچا دوں گا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More