پیپلزپارٹی اب تو کچھ نیک نامی کمالے

0

سپریم کورٹ کے جج صاحبان، بالخصوص چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی نظروں میں تمام قومی مسائل ہیں۔ اسی بنا پر وہ عدالتوں میں پیش کیے جانے والے مقدمات کے ساتھ اہم قومی امور پر ازخود نوٹس لیتے اور مختلف اداروں کا دورہ کرکے اصلاح احوال کی کوششوں میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بدعنوان اور نااہل حکمرانوں، سیاستدانوں، مفادپرست اور دولت کے پجاریوں کو ان کے یہ اقدامات پسند نہیں آسکتے، کیونکہ ان کی لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری اور قومی اداروں کو تباہ کرنے والی پالیسیوں پر شدید ضرب پڑتی ہے۔ چنانچہ ان حلقوں کی جانب سے آئے دن ایسے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو صرف عدالتی معاملات اور زیرسماعت مقدمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں حکومتی، سرکاری اور سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے دائرہ ہائے کار بلاشبہ مختلف ہیں۔ لیکن عدلیہ کو دیگر اداروں پر یہ فوقیت اور برتری حاصل ہے کہ حکومت اور اس کے ماتحت ادارے اگر اپنے فرائض منصبی دیانتداری اور فرش شناسی کے ساتھ ادا نہ کر رہے ہوں، ان کے منفی معاملات سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہونے لگیں یا قومی مفادات بری طرح متاثر ہوں تو اعلیٰ عدالتوں کا سامنے آنا ضروری ہوجاتا ہے، تاکہ ملک و قوم کو مزید نقصانات سے بچایا جا سکے۔ جس طرح غیر معمولی حالات میں افواج پاکستان میدان میں آکر تحفظ و سلامتی کے اقدامات کرتی ہیں، اسی طرح اعلیٰ عدالتیں قومی اداروں کو بچانے اور شہریوں کو آئین و قانون کے تحت ان کے حقوق دلانے کے لیے آگے آ سکتی ہیں۔ اس پر سیاستدانوں یا سیاسی حکومتوں کی جانب سے اظہار برہمی ان کی منفی سوچ اور خود اپنے ذاتی و گروہی مفادات پر تحفظات کا اظہار ہے۔ جس کی نہ کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ اسے مظلوم و بے کس عوام کی جانب سے پذیرائی مل سکتی ہے۔ ملک کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے، جسے ماضی کے نہایت بدعنوان حکمرانوں نے حل کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ، ٹھوس اور پائیدار کوشش نہیں کی۔ اب یہ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں حل نہ کیا گیا تو پاکستان کی زرخیز زمین بنجر ہوجائے گی۔ لوگوں کو پینے کا پانی ملے گا نہ ضرورت کے مطابق زرعی پیداوار حاصل ہو سکے گی۔ چیف جسٹس میاں ثابت نثار نے گزشتہ حکومت کے دور میں آبی بحران کی سنگینی کا احساس کرکے دیامر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے ازخود قدم اٹھایا تو اندرون و بیرون تمام پاکستانیوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور عوام نے ڈیم فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیا۔ تحریک انصاف کی نئی حکومت آئی تو اس نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ڈیم تعمیر مہم میں بھرپور تعاون کا اعلان کیا۔ اس منصوبے پر انہیں افواج پاکستان کی بھی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے اور اس طرح نئے ڈیموں کی تعمیر کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ کیونکہ مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور محب وطن ذرائع ابلاغ، سب کی سوچ یکساں ہے اور وہ مل جل کر عملی اقدامات پر آمادہ ہیں۔
بدقسمتی سے نئے ڈیموں کی تعمیر پر سب سے زیادہ اعتراضات پیپلز پارٹی کی جانب سے اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کے رہنماؤں کی جانب پہلے یہ کیا گیا کہ چیف جسٹس کا کام ڈیم بنانا نہیں مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی عدالتوں میں بے شمار مقدمات جلد فیصلوں کے منتظر ہیں، لیکن انہیں حل کرنے کے دوران کیا وطن عزیز کی انتہائی ضرورت کے کسی دوسرے کام پر توجہ مبذول کرنا غلط ہے؟ پانی کا مسئلہ حل کرنا ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی بنیادی ذمہ داری تھی، جو 1958ء سے اب تک ساٹھ سال کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں کئی بار برسر اقتدار آئیں۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی بھی کالا باغ ڈیم سے لے کر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر تک مخالفت کرتی چلی آرہی ہے جو بالواسطہ نہ سہی بلاواسطہ بھارت کے ایجنڈے کی حمایت کے مترادف ہے۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ڈیم سے متعلق عدلیہ اور فوج کی پیش قدمی پر جل کر کہا کہ چیف جسٹس صاحب کو اپنی سیاسی جماعت بنا لینی چاہیے تو کیا اعلیٰ عدالتوں میں خورشید شاہ جیسے لوگوں کو بٹھا دیا جائے جو تمام قاتلوں، دہشت گردوں، بھتا خوروں، زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے والوں اور قومی دولت کے تمام لٹیروں کو بیک جنبش قلم تمام الزامات سے بری کرکے آزاد چھوڑ دیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ڈیمز کی تعمیر پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ جو لوگ ان کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ کسی اور (کے) ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کسی کو ہمیں سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ڈیموں کے مخالفین کو آخری وارننگ دے رہے ہیں۔ عدالت کو بدنام کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا۔ ڈو ڈوچہ ڈیم تعمیر کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ میں انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ سیاسی نہیں، بنیادی حقوق کے مقدمات ہیں۔ ہم آنے والی نسلوں کے لیے ڈیم بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر کا مقصد پاکستانی باشندوں کی آبی ضروریات کو پورا کرکے پاکستان کو ایک مضبوط و محفوظ ملک بنانا ہے۔ پیپلز پارٹی کے نوخیز و نوآموز چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ انتخابات سے قبل کہا تھا کہ وہ پانی کا مسئلہ سمندر کے پانی کو میٹھا کرکے حل کریں گے۔ سندھ کی حکومت ان کے بیان پر توجہ دے اور ڈیموں کی تعمیر پر اعتراض کرنے کے بجائے تعاون کرے تو ملک میں پانی کے سنگین بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اس اہم کام کا آغاز ہوتا ہے تو پیپلز پارٹی اسے تضحیک کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنی سیاسی اور افرادی قوت اور بے پناہ دولت کے ساتھ خود بھی آگے بڑھے اور ایک اچھے کام میں تعاون کرکے اب تو کچھ نیک نامی کما لے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More