حضرتپیر سید مہر علی صاحبؒ سلسلۂ تصوف کے ایک مایہ ناز اور معروف پیر طریقت تھے۔ آپؒ کی ذات میں ایک دو نہیں، بلکہ کئی گوشے پوشیدہ تھے۔ آپ نے پوری زندگی اتحاد امت کا کام فرض اولین سمجھ کر کیا اور شاید ہی کوئی اہل اسلام ہوگا، جو حضرت پیر سید مہر علیؒ صاحب کے نام نامی اسم گرامی سے آگاہ نہ ہوگا۔
حصوصاً آپ کا ذکر خیر قادیانیوں کے جد امجد مزرا لعین کے ساتھ مناظروں کی وجہ سے عام طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ ذکر آگے چل کر آپ کے لیے پیش کیا جائے گا۔ ابھی ہم آپ کی خدمت میں حضرت کے ابتدائی حالات زندگی پیش کر رہے ہیں۔
حضرت پیر صاحبؒ 14 اپریل 1859ء کو پیر کے روز اس دنیا میں تشریف لائے۔ اسلامی تقویم کے مطابق آپ کی پیدائش یکم رمضان المبارک 1275ھ میں ہوئی۔ پیر ہی کے روز سرکار دو عالمؐ کی بھی پیدائش مبارک ہوئی تھی۔ یوں اس مرد جلیل نے پیدائش کے ساتھ ہی سرکار دو جہاںؐ سے اپنی نسبت قائم کرلی۔ یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدا کریم غفور الرحیم نے حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کو آنحضرتؐ کے ساتھ نسبت عطا فرما دی۔
1857ھ کے بعد انگریزوں نے غداروں کی مدد سے گویا پورے ہندوستان پر اپنا قبضہ جما لیا تھا اور مسلمانوں کی ابتری ایک مثال بن چکی تھی۔ انہی حالات میں حضرت صاحبؒ کی پیدائش ہوئی۔ مسلمان اپنے عظیم ترین عروج کے بعد زوال کا تماشا دیکھ رہے تھے، بلکہ بن رہے تھے۔ جو بچ رہے وہ یا وطن ہی چھوڑ کر چلے گئے یا پھر انگریزوں کی قید میں زندگی کی گھڑیاں گن رہے تھے۔
یہ حالات ایک تازیانہ عبرت سے کم نہ تھے۔ مگر یہ تھے اہل اسلام کے اپنے ہی پیدا کردہ۔ جن کے عوامل پر بعد میں ہم نے غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ جب مسلمانوں نے عیش و عشرت کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھ لیا تو یہ گویا کہ ایک عذاب ہی تھا۔ مگر ان حالات میں بھی خدا تعالیٰ نے اہل اسلام کی راہنمائی کے لیے اک مرد دانا کو سرزمین پنجاب میں وارد فرمایا۔
حق تعالیٰ نے اس ابتلا کے دور میں جبکہ فرنگی راج پورے جوبن پر تھا اور ہر طرف انگریزوں کا حکم اور انہی کی ننگی تہذیب کا پر چار ہو رہا تھا، اس مجاہد اعظم کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اپنی مجاہدانہ کاوشوں سے اس وقت روحانیت اور شریعت و طریقت کو اجاگر فرمایا، جبکہ انگریز ہر حال میں مسلمانوں سے ان کا قومی جذبہ اور حمیت چھین لینے کے درپے تھا۔ انگریز کی کوشش تھی کہ اسلامی اقدار کو نیست و نابود کر ڈالے۔
اسی سلسلے میں اس نے ہر شہر میں مشزی اسکول کھلوائے تاکہ مسلمانوں کے بچوں کو دینی تعلیم سے برگشتہ کیا جائے اور ان کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جائے۔ مگر حق تعالیٰ نے تو خود ہی اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ پھر کسی کی کیا طاقت ہے کہ دین اسلام کو ختم کر سکے۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کی ولادت با سعادت اس پر افتاد دور میں ہوئی اگر آپ تاریخ کے مطالعہ کاشغف رکھتے ہیں تو آپ کو بخوبی ان حالات و واقعات کا علم ہوگا کہ کس طرح انگریز معصوم مسلمانوں کا بہکا کر اپنے جال میں پھنسا رہا تھا اور یہ وہی حالات تھے۔ جن کے متعلق آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا تھا۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک حق تعالیٰ اس امت کے ہر صدی کے سرے پر ایسا شخص مبعوث فرمائیں گے جو اس کے دین کی تجدید کرے گا۔
آنحضرتؐ کے درج بالا ارشاد عالیشان کو غور سے پڑھیں تو آپ کو یقین ہوجائے گا کہ یہ ارشاد عالیشان حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کی ذات گرامی پر پورا اترتا ہے۔ حضرت صاحبؒ نے تن تنہا بدعات کے خاتمہ کے لیے بے انتہا کوششیں کیں اور ان کا ایک بڑا کارنامہ تو اس زمانے کے مشہور فتنہ قادیان کے خاتمے کیلئے تحریری اور تقریری طور پر میدان عمل میں وارد ہونا ہے۔
اگر آپ حضرت صاحبؒ کی تاریخ پیدائش پر غور فرمائیں تو آپ کو ان کے مجدد ہونے میں کسی بھی معترض کا جواب دینے میں آسانی پیش آئے گی۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کی ولادت 1275ھ میںہوئی۔ اور ہم نے سابقہ سطور میں یہ عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرکار دو عالمؐ کی حدیث مبارک کی روشنی میں حضرت صاحبؒ کی ولادت ایسے ہی دور میں ہوئی۔ یوں آپ دیکھیں کہ پیران پیر حضرت محیی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کی ولادت باسعادت 471ھ اور وصال 562ھ میں ہوا اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کی ولادت باسعادت 971ھ اور وفات 1034ھ میں ہوئی۔
یہ تو تھی ایک مثال کہ حضرت صاحبؒ کو ہم مجدد کیوں مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ حضرت صاحبؒ نے ان غلط باتوں کی بھی اطلاع فرمائیں جن کا اہل اسلام میں زور ہوچکا تھا۔ آپ نے ملت کو پوری طرح متحدہ رکھنے کے لیے بے حد کو ششیں کیں۔ لوگوں کے دلوں سے ایہام کو دور کیا اور صرف اسلام ہی سے محبت کا درس دیا۔ جب کہ عام لوگوں کوقتنہ قادیان سے بچانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں بذات خود جانے سے بھی گریز نہ فرمایا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post