مسجد میں ٹیوشن پڑھانا
سوال: ایک شخص مسجد میں ٹیوشن سینٹر چلا رہاہے جب کہ وہ نہ تو امام ہے ، نہ موذن ہے، نہ اس کے پاس کوئی ڈگری ہے، جیسے عالم، حافظ وغیرہ، وہ پانچویں کلاس کے بچوں کو پڑھاتا ہے، وہ فیس اپنے پاس رکھتا ہے، وہ مسجد کو ایک بھی پیسہ نہیں دیتا اور بچے مسجد کو گندہ کر دیتے ہیں۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔
جواب: ٹیوشن سینٹر مسجد شرعی کے حصے میں چلانا اور عصری تعلیم دے کر فیس حاصل کرنا یہ دونوں کام مسجدمیں جائز نہیں۔(الہندیۃ: 5/371) ہاں اگر پڑھانے والا مسجد کے باہر پڑھائے اور پڑھانے کی اہلیت رکھتا ہو (خواہ مولوی عالم نہ ہو) تو پڑھانے کی اجرت لینا جائز ہے۔ مسجد کی وضع نماز، ذکر، تلاوت قرآن اور وعظ ونصیحت کے لیے ہے، پانچویں تک کا کلاس لگانا اور اجرت خود لینا دونوں باتیں مسجد کی وضع کے خلاف ہیں۔ نیز چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے سے حدیث میں صراحۃً ممانعت وارد ہے، بالخصوص جب وہ شور وشغب کرنے والے ہوں اور پیشاب وغیرہ سے مسجد کے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہو، اس لحاظ سے بھی مذکور فی السوال عمل مسجد میں جائز نہیں، حدیث میں ہے: جنبوا مساجدَکم صبیانَکم ومجانینَکم وشراء کم الخ (رواہ ابن ماجہ) (فتویٰ :444-376/D=5/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
پے ٹی ایم کا استعمال
سوال: تجارت میں پے ٹی ایم (paytm) استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب: ہماری معلومات کے مطابق پے ٹی ایم ایک ایپ ہوتا ہے، جس کے ذریعے ایک اکائونٹ سے دوسرے اکائونٹ میں روپے منتقل کیے جاتے ہیں، بہ ظاہر اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اگر آپ کو اس کے اندر کسی جز میں شبہ ہو تو اس کو لکھ کر سوال کریں۔ (فتویٰ: 434-372/D=5/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
مکڑی کو مارنا
سوال: مفتی صاحب! کیا مکڑی کو مارنا جائز ہے؟
جواب: مکڑی جو گھروں میں جالا تنتی ہے، وہ موذی نہیں ہے، بلاضرورت اسے مارنا نہ چاہئے، البتہ اگر مکڑی کے جالے ہوگئے ہوں تو صاف کر سکتے ہیں۔ (فتویٰ :491 -54T/L=4/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
ائمہ مساجد کا سرکاری تنخواہ لینا
سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت نے ائمہ کرام کو سرکاری تنخواہیں جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ ہاں جس پارٹی کی حکومت ہے، اس کے بارے میں دینی جماعتوں کے تاثرات اچھے نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں ائمہ کرام کا اس سرکار سے تنخواہیں لینا جائز ہے؟
جواب: اگر کسی خلاف شرع امر کا ارتکاب لازم نہ ہو اور ناجائز دبائو کا خطرہ بھی نہ ہو، نیز مقامی علماء اس تنخواہ میں کوئی مضائقہ نہ محسوس کریں تو ائمہ کرام کے لیے تنخواہ لینے میں حرج نہیں۔ حاصل یہ کہ مقامی علمائے کرام کی ہدایت، مشورہ اور فتوے کے مطابق عمل کریں۔ (فتویٰ: 418-360/D=5/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
قوالی کا پروگرام
سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ گر کوئی قوالی کا پروگرام کرائے تو کیا اس کا سننا حرام ہے؟
جواب: اگر اشعار اچھے اور دینی مضامین پر مشتمل ہوں اور خلافِ شرع کوئی چیز نہ ہو تو ان کا سننا ناجائز نہیں، لیکن عموماً قوالی کا پروگرام مفاسد پر مشتمل ہوتا ہے، ڈھول باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال ہوتا ہے، عشقیہ اشعار ہوتے ہیں وغیرہ تو اس طرح کا پروگرام سننا جائز نہیں۔ (فتویٰ :402 -363/M=4/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post