امت رپورٹ
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ لندن کے ریجنٹ پارک اسلامک سینٹر میں ادا کر دی گئی۔ جس میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رہنمائوں سمیت عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خاصے رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ ریجنٹ پارک اسلامک سینٹر میں موجود ’’امت‘‘ کے نمائندہ نے بتایا کہ تقریباً پونے دو ہزار افراد کی گنجائش والا اسلامک سینٹر کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جبکہ گنجائش ختم ہونے پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلامک سینٹر کے احاطے میں نماز ادا کی۔ نماز جنازہ پڑھنے کے لئے خواتین کا علیحدہ انتظام کیا گیا تھا۔ جہاں قریباً ڈھائی سو کے قریب خواتین موجود تھیں۔ نمائندہ ’’امت‘‘ کے مطابق نماز جنازہ کے موقع پر اگرچہ حسن اور حسین نواز سمیت بیگم کلثوم نواز کے دیگر قریبی عزیزوں کی آنکھیں نم تھیں۔ تاہم خواتین زار و قطار روتی رہیں۔ نماز جنازہ ادا کرنے والی خواتین میں بیگم کلثوم نواز کی چھوٹی صاحبزادی اسما نواز اور شہباز شریف کی بیٹی عائشہ اور اسحاق ڈار کی بیٹی حلیمہ ڈار سمیت خاندان کی دیگر خواتین شامل تھیں۔ نمائندہ کے بقول برطانیہ میں زیادہ تر نماز جنازہ مساجد اور اسلامک سینٹرز میں ادا کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی طرح کھلے میدان میں نماز جنازہ کے لئے خصوصی اجازت درکار ہوتی ہے، لہٰذا لوگ مساجد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ویسے بھی دیار غیر میں نماز جنازہ میں لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ کسی بڑے گرائونڈ کی ضرورت پڑے۔ بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں ڈھائی سے تین ہزار افراد نے شرکت کی۔ اس لحاظ سے یہ لندن میں پاکستانی کمیونٹی کا ایک بڑا اجتماع تھا۔ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے لوگ مانچسٹر، برمنگھم، بریڈ فورڈ، گلاسگو، ویلز، کارڈف اور برطانیہ کے دیگر شہروں سے لندن پہنچے تھے۔ غیر متوقع طور پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ناراض رہنما اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی نماز جنازہ کے موقع پر موجود تھے۔ ایک نون لیگی عہدیدار کے بقول چوہدری نثار کی پیشگی اطلاع کم از کم پارٹی کے لندن چیپٹر کو نہیں تھی۔ چوہدری نثار نے حسن اور حسین کے علاوہ شہباز شریف سے بھی تعزیت کی اور نماز جنازہ کی تیاری کے موقع پر وہ ان تینوں کے ہمراہ رہے۔ جبکہ انہوں نے پہلی صف میں حسین نواز اور شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کی۔ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سینئر رہنما برجیس طاہر بھی پاکستان سے لندن پہنچے تھے۔ یہ وہی برجیس طاہر ہیں، جو اپنی انتخابی مہم کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کی سزا کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس ظلم پر انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی۔ نمائندہ کے مطابق یہ ایک GOOD GESTURE تھا کہ نماز جنازہ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اوورسیز عہدیداران نے بھی شرکت کی۔ ان میں پیپلز پارٹی برطانیہ کے صدر محسن باری، سابق سیکریٹری جنرل برطانیہ ابرار میر۔ تحریک انصاف لندن کے صدر وحید الرحمن میاں اور دیگر شامل تھے۔ اسی طرح سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم احمد محمود اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے بھی بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ پڑھی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ برطانیہ کے قائم مقام صدر عبدالشکور، سینئر نائب صدر ناصر بٹ، یوتھ ونگ مسلم لیگ ’’ن‘‘ برطانیہ کے صدر انجم چوہدری، چوہدری انصر محمود ایڈووکیٹ، سابق ویلفیئر اتاشی صفدر ملک اور دیگر بھی نماز جنازہ میں موجود تھے۔
نماز جنازہ کے بعد شہباز شریف بیگم کلثوم نواز کی میت لے کر ہیتھرو ایئرپورٹ روانہ ہو گئے۔ وہ جمعہ کی صبح میت لے کر لاہور پہنچیں گے۔ جب گاڑی میں میت ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو رہی تھی کہ نون لیگ کے سینکڑوں کارکنان جذباتی ہو گئے۔ وہ مادر جمہوریت الوداع کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر رش کی وجہ سے ریجنٹ پارک روڈ بلاک ہو گیا۔
بیگم کلثوم نواز کی میت پاکستان روانہ کرنے کے لئے مرحومہ کے بیٹے حسن نواز، حسین نواز اور اسحاق ڈار سمیت دیگر عزیز ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچے۔ شہباز شریف کے ہمراہ لندن سے نواز شریف کی چھوٹی بیٹی اسمائ، اسحاق ڈار کے بیٹے عثمان ڈار اور بیٹی حلیمہ ڈار بھی پاکستان آ رہی ہیں۔ جبکہ نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان، پاناما کیس میں زیر بحث آنے والی حسین نواز کی منروا فرم کے نمائندے فیصل ٹوانہ، حسین نواز کے بیٹے ذکریا حسین بھی میت کے ہمراہ لاہور پہنچیں گے۔
بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے مانچسٹر سے آنے والے بیرسٹر امجد ملک کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ برطانیہ کے طول و عرض سے لوگ سابق فرسٹ لیڈی کی خدمات کا اعتراف کرنے لندن پہنچے تھے۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے، جن کا مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز ایک غیر متنازعہ شخصیت تھیں۔ بیگم کلثوم نواز سے اپنی چند ملاقاتوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ سابق فرسٹ لیڈی زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھتی تھیں۔ کم باتیں کرتی تھیں اور لہجہ دھیما ہوتا تھا۔ ماں جیسی شفقت ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بالخصوص نوجوان پارٹی ورکرز اور عہدیداران انہیں اپنی والدہ جیسا درجہ دیتے تھے۔
قبل ازیں گزشتہ رات جب شہباز شریف لندن پہنچے تو اس موقع پر بھی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ چچا شہباز شریف سے گلے ملتے ہوئے حسین نواز اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ لاہور میں موجود لیگی ذرائع کے بقول شہباز شریف بھی اکثر بیمار رہتے ہیں اور وہ بیک وقت بہت سی دوائیاں استعمال کر رہے ہیں۔ لہٰذا پہلے یہ غور کیا جا رہا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کی میت لانے کے لئے حمزہ یا سلمان شہباز میں سے کسی ایک کو بھیج دیا جائے۔ کیونکہ لندن جانے اور پھر فوری پاکستان واپسی کے طویل سفر سے شہباز شریف کو تھکاوٹ ہو سکتی ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد سے وہ مسلسل مصروف ہیں اور انہیں آرام تو دور کی بات ہے پوری طرح نیند لینے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ پھر یہ کہ میت واپس پاکستان لانے کے بعد وہ نماز جنازہ کے انتظامات اور تعزیت کے لئے آنے والے لوگوں سے ملاقات میں مصروف ہو جائیں گے۔ تاہم ذرائع کے مطابق خاندان کے بڑوں کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو لندن بھیجنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ باپ کی غیر موجودگی میں چچا ہی یہ کمی پوری کر سکتا ہے۔ حسن اور حسین نواز ان کے لندن پہنچنے پر پدرانہ شفقت محسوس کریں گے اور ان کو دکھ کی اس گھڑی میں حوصلہ بھی ہو گا۔ اس نقطہ نظر کے پیش نظر شہباز شریف کو میت لانے کے لئے لندن بھیجنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
Next Post