روایات سے معلوم ہوتا ہے حضرت پیر صاحبؒ کی ولادت کے متعلق حضرت صاحبؒ کے خاندان میں بشارتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ آپ کی ولادت باسعادت کے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پیر طریقت حضرت پیر سید فضل دینؒ جو آپ کے والد صاحب کے ماموں بھی تھے۔ ان دنوں حضرت پیر سید فضل دینؒ خاندان شریف قادریہ کی مسند ارشاد پر بھی رونق افروز تھے۔ حضرت پیر سید فضل دینؒ نے آپ کے متعلق بشارت اہل خانہ کو دے دی تھی۔
ابتدائی حالات: آپؒ کے متعلق آپ کے پیر طریقت حضرت پیر سید فضل دینؒ کو بہت کچھ معلوم تھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر روایات میں یوں ملتا ہے کہ ایک روز جب کہ حضرت پیر سید مہر علی صاحبؒ کی عمر بشمکل چار برس تھی۔ آپ عربی کا ابتدائی قاعدہ پڑھا کرتے تھے۔ آپؒ کو حضرت پیر فضل دینؒ نے شدید گرمی میں خانقاہ کی بیرونی جھاڑیوں میں استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ پر دھوپ پڑ رہی تھی اور زمین بھی دھوپ کی شدت سے تپ رہی تھی۔
حضرت پیر سید فضل دینؒ نے فوری طور پر چھتری منگوا کر آپ پر سایہ کیا اور گھر بجھوانے کے لیے ارشاد فرمایا۔ جب تک گھر لے جانے کا انتظام نہ ہوگیا، آپ کے پیر طریقت وہیں چھتری لیے کھڑے رہے اور بار بار فرماتے رہے۔
’’معلوم نہیں کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔‘‘
یہ ارشاد کچھ کم معنی نہیں رکھتا۔ جن لوگوں نے اس ارشاد کو سنا، انہوں نے اپنے جالنے والوں اور اہل و عیال کو بھی جا سنایا کہ حضرت فضل دین صاحب اس بچے کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ لازمی بات ہے کہ سبھی خاص و عام کی نظریں آپ پر ہی مرکوز ہوگئی ہوں گی۔ انہی نظروں میں آپ کے اوپر آپ کے پیر طریقت کی نظر بھی تھی۔ جو آپ کے باطنی رجحانات کو تقویت دینے کا باعث تھی۔
ایک جگہ اپنے بچپن کا ذکر اس طرح فرماتے ہیںکہ ’’بچپن میں مجھے آبادی سے ایک گونہ وحشت اور ویرانوں میں جی لگنے کا احساس ہوتا تھا۔ میں ابھی اتنا چھوٹا تھا کہ گھر کے دروازوں کی اندر والی درمیانی زنجیر تک میرا ہاتھ نہ پہنچتا تھا۔ یعنی میں کسی چیز پر کھڑے ہوئے بغیر دروازے کی زنجیر کھول نہ سکتا تھا، اس لیے میں شام ہی کو ایک پتھر دھکیل کر دروازے کے قریب رکھ دیا کرتا تھا۔
رات جب میں دیکھتا کہ گھر والے سو چکے ہیں تو اس پتھر پر چڑھ کر زنجیر کھول کر باہر نکل آتا اور رات کا بیشتر حصہ سامنے والے پہاڑی نالے کے گڑھوں اور جھاڑیوں میں گزارنا۔ کبھی ساتھ والے جنگل میں پھرتا رہتا۔ جب ذرا بڑا ہوا تو اس وحشت کے ساتھ ساتھ طبیعت میں گرمی اور حدت اس قدر زیادہ ہو جاتی کہ سخت سردی کے ایام میں بھی بعض اوقات نالے کے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا کرتا۔
نالے کے ٹھنڈے اور یخ بستہ پانی کو اپنے جسم پر ملا کرتا۔ کبھی جب رات گئے مطالعہ سے فارغ ہو کر کمرے سے باہر نکلتا تو موسم کی سرد پہاڑی ہواؤں کے جھونکوں سے ایسی تسکین حاصل ہوتی جیسے گرمیوں میں کسی تشنہ کام کو آب سرد سے ہوتی ہے۔‘‘
ان کیفیات کو بیان کرنا ہی دراصل اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ گویا قدرت کاملہ خود ہی حضرت صاحبؒ پر مہربان ہے اور خود ہی ان کی نگہداشت بھی کر رہی ہے۔ ان کو تمام دنیاوی عیش و آرام سے زیادہ عبادت الٰہی میں سکون و راحت حاصل ہوتی تھی۔
’’ملفوظات طیبات‘‘ اور ’’سیف چشتیائی‘‘ میں آپؒ کی اپنی زبانی ارشاد ہے کہ جب آپ کی عمر مبارک سات برسات تھی تو!
’’میرے خواب میں شیطان نے مجھے کہا کہ آؤ میرے ساتھ کشتی لڑو۔ جب میں اسے گرانے کے قریب ہوتا تو دل میں خوشی پیدا ہوتی کہ میں اس پر غالب آرہا ہوں۔ مگر اچانک رخ بدل جاتا اور جب وہ مجھے گرا لینے کے قریب ہوتا تو تائید الٰہی سے میری زبان سے لا حول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم جاری ہو جاتا اور وہ مغلوب ہونے لگتا۔ تین چار بار ایسا ہوا اور بالآخر حق تعالیٰ کی مدد سے اسے گرانے میں کامیاب ہوا۔‘‘
آپ خیال فرمائیں کہ یہ وہ عمر ہے کہ جب بچے کو کھیل کود سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ مگر جس شخصیت کو خدا پاک نے کوئی فریضہ سونپنا ہوتا ہے، اس کو باطنی صفائی باری تعالیٰ اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کی غلطی کا امکان نہیں رہتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post