شیخ عبد القادر نے یونیورسٹی میں مجھے دیکھا اور میں نے ان کی طرف دیکھا، انہوں نے مجھے بلا لیا، بات شروع ہو گئی اور یوں لگا جیسے برسوں کی شناسائی ہے۔ شیخ عبد القادر کا جس جگہ قیام تھا، میں وہاں جانے کو ان کے ساتھ ہی چل دیا۔ وہ نماز پڑھنے لگ گئے۔ میں نے دیکھا تو نماز کو ’’یوگا‘‘ سمجھا۔ لیکن پھر سوچا۔ یہ یوگا تو نہیں لگتا، کوئی اور ہی چیز لگتی ہے۔ بہرحال! وہ جب فارغ ہوئے تو میں نے پوچھ لیا کہ یہ آپ کیا کر رہے تھے؟
کہنے لگے: میں مسلمان ہوں، خدا کے حضور عبادت کر رہا تھا۔ مجھے یہ سن کر ایک جھٹکا لگا، جھٹکا اس لئے لگا، کیونکہ میرا خیال تو یہی تھا کہ عرب ہی مسلمان ہوتے ہیں۔ یورپ کے لوگ مسلمان نہیں ہوتے، اب ایک اصلی یورپی باشندہ مسلمان ہے۔ برطانیہ کے علاقے اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والا انگریز مسلمان کیسے ہو گیا، میرے لئے یہ بات تعجب کی تھی اور یہ تو بہرحال حقیقت تھی کہ عبد القادر صاحب اب مسلمان تھے اور میرے سامنے تھے۔
مجھے کہنے لگے: معبود تین نہیں، بلکہ ایک ہے، کہو اور بولو اس کا نام ’’اللہ‘‘ اور پھر وہ اللہ اللہ اللہ کہنے لگے۔ میں نے بھی تین بار اللہ اللہ اللہ کہہ دیا۔ اس سے یوں ہوا جیسے میرے دل کو سکون اور چین آ گیا ہو۔ وہ پیاس جو مجھے بچپن میں تھی، اس کا مداوا ہو گیا ہو۔ شیخ عبد القادر نے اب مزید کوئی بات نہیں کی اور میں یہاں سے رخصت ہو گیا، میری حالت کو دیکھ کر شاید انہوں نے مجھے ابتداء میں اتنی ہی خوراک دینا مناسب سمجھی۔
اس کے بعد میں اپنے کسی کام کے سلسلے میں تیونس گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی، اللہ اکبر اللہ اکبر… اب جب میں نے اللہ کا نام سنا تو اس نام نے میرے دل پر ایسا اثر کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ دوستوں نے پوچھا کدھر؟ میں نے کہا اللہ کی جانب۔ کہنے لگے، یہ کیا؟ میں نے کہا، اللہ بلا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجد میں جا رہا ہوں، کہنے لگے، وہاں تیرا کیا کام؟ کہا… بس جانا ہے، وہاں مسلمانوں کی نماز دیکھوں گا اور پڑھوں گا۔
دوست کہنے لگے: مسلمان تجھے ماریں گے۔ ہو سکتا ہے قتل بھی کر دیں، یہ گاؤں ہے، لوگ بھی نہ جانے کیسے ہوں؟ تو ہمیں بھی مصیبت میں ڈالے گا۔ میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا اور دوستوں کو چھوڑ کر مسجد کی طرف چلا گیا۔ وہاں لوگوں کو دیکھا، ہاتھ منہ دھو رہے ہیں، مجھے کیا پتہ وضو کس چیز کا نام ہے؟ چنانچہ میں نے ہاتھ منہ دھوئے اور مسجد میں چلا گیا، صف میں کھڑا ہو گیا، اب میں اپنے اردگرد دیکھتا اور جس طرح وہ لوگ کر رہے تھے، اسی طرح کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ دائیں بائیں والوں کو ہاتھ لگ جاتا، بیٹھنے لگتا تو ٹانگ کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا تو پاؤں لگ جاتا۔
تیونس کی اس مسجد کے نمازی جو میرے دائیں بائیں
تھے، حیران تھے کہ یہ آج کون سا نمازی آ گیا ہے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ جوتے پہن کر نہیں گیا، وگرنہ نہ جانے کیا ہوتا؟ اب نماز ختم ہوئی تو دائیں بائیں کے نمازی میری طرف حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے عربی میں بات کرنے لگے تو مجھے عربی آتی نہیں تھی۔ یوں بات آگے بڑھی اور لوگ میرے اردگرد اکٹھے ہوئے۔
اتنے میں امام صاحب بھی آ گئے، میں نے انہیں فرانسیسی زبان میں کہا میں مسلمان ہوں، امام صاحب نے اپنے مقتدیوں کو کہا یہ کوئی نیا نیا مسلمان ہے، اسے چھوڑ دو۔
اب میں بڑا حیران تھا کہ میں نے کیا اعلان کر دیا کہ کہہ دیا میں مسلمان ہوں۔ مگر یہ میرے دل کی گواہی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post