معارف و مسائل

0

شق قمر کے واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اقدسؐ مکہ مکرمہ کے مقام منیٰ میں تشریف رکھتے تھے، مشرکین مکہ نے آپؐ سے نبوت کی نشانی طلب کی، یہ واقعہ ایک چاندنی رات کا ہے، حق تعالیٰ نے یہ کھلا ہوا معجزہ دکھلا دیا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہو کر ایک مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف چلا گیا اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں پہاڑ حائل نظر آنے لگا۔ رسول اکرمؐ نے سب حاضرین سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو۔ جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔ اس کھلے ہوئے معجزے کا انکار تو کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہو سکتا تھا، مگر مشرکین کہنے لگے کہ محمدؐ سارے جہان پر جادو نہیں کر سکتے، اطراف ملک سے آنے والے لوگوں کا انتظار کرو، وہ کیا کہتے ہیں۔ بیہقی اور ابو داؤد طیالسی کی روایت حضرت ابن مسعودؓ سے ہے کہ بعد میں تمام اطراف سے آنے والے مسافروں سے ان لوگوں نے تحقیق کی تو سب نے ایسا ہی چاند کے دو ٹکڑے دیکھنے کا اعتراف کیا۔
بعض روایات میں ہے کہ یہ معجزہ شق القمر مکہ مکرمہ میں دو مرتبہ پیش آیا، مگر روایات صحیحہ سے ایک ہی مرتبہ کا ثبوت ملتا ہے۔ (بیان القرآن) اس معاملے سے متعلق چند روایات حدیث یہ ہیں (جو تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں)
(1 ) صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ اہل مکہ نے رسول اقدسؐ سے سوال کیا کہ اپنی نبوت کے لئے کوئی نشانی (معجزہ) دکھلائیں، تو حق تعالیٰ نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھلا دیا، یہاں تک کہ انہوں نے جبل حراء کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔
(2) صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے: رسول اقدسؐ کے زمانہ مبارک میں چاند شق ہوا اور دو ٹکڑے ہو گئے، جس کو سب نے صاف طور سے دیکھا اور آنحضرتؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو۔
اور ابن جریرؒ نے بھی اپنی سند سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ میں رسول اقدسؐ کے ساتھ تھے، اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چلا گیا تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ گواہی دو، گواہی دو۔
(3) حضرت ابن مسعودؓ ہی کی روایت سے ابو داؤد طیالسی نے اور بیہقی نے یہ بھی نقل کیا ہے:
مکہ مکرمہ (کے قیام کے زمانہ) میں چاند شق ہو کر دو ٹکڑے ہوگیا، کفار قریش کہنے لگے کہ یہ جادو ہے، ابن ابی کبشہ (یعنی رسول کریمؐ) نے تم پر جادو کردیا ہے، اس لئے تم انتظار کرو باہر سے آنے والے مسافروں کا، اگر انہوں نے بھی یہ دو ٹکڑے چاند کے دیکھے ہیں تو انہوں نے سچ کہا ہے اور اگر باہر کے لوگوں نے ایسا نہیں دیکھا تو پھر یہ بے شک جادو ہی ہوگا، پھر باہر سے آنے والے مسافروں سے تحقیق کی، جو ہر طرف سے آئے تھے، سب نے اعتراف کیا کہ ہم نے بھی یہ دو ٹکڑے دیکھے ہیں۔‘‘ (ابن کثیر) (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More