اب جب میں مراکش سے واپس میڈرڈ گیا تو ایئر پورٹ سے سیدھا شیخ عبد القادر کی خدمت میں گیا۔ میں جب ان کے ہاں پہنچا تو خوبصورت اتفاق کہ وہ دروازہ پر ہی کھڑے تھے، انہوں نے مجھے چہرے سے پہچان لیا اور کہا اندر آ جاؤ۔ مجھے خدا سے محبت اور نماز پڑھنے کا تو جنون ہو گیا کہ کب وقت ہو گا کہ میں نماز میں چلا جاؤں گا۔ دل تو یہ چاہتا تھا کہ ہر لمحہ نماز ہی میں رہوں، نماز اور خدا کا ذکر…
یہ دن رات میرا کام تھا، میں نے سورئہ فاتحہ بھی یاد کر لی تھی۔ تینوں قل اور نماز کی دعائیں یاد کر لی تھیں۔ رمضان بھی آ گیا تھا۔ میڈرڈ میں ایک ہی مسجد تھی، وہ بھی ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جسے مراکش کے لوگوں نے بنایا تھا۔ میں وہاں چلا گیا اور اعلانیہ طور پر کلمہ شہادت پڑھ لیا، میں اپنے شیخ عبد القادر کے ہمراہ 25 سال رہا۔ پڑھتا بھی رہا اور دین کا کام بھی کرتا رہا۔‘‘
عمر ابراہیم کا سب سے بڑا کارنامہ:
قارئین کرام! عمر ابراہیم وڈیلو کے اسلام قبول کرنے کی داستان آپ نے پڑھ لی۔ اب قبول اسلام کے بعد یہ شخص سودی نظام معیشت کے خلاف ایک جنگ برپا کر رکھی ہے۔ یہ درہم و دینار تحریک کے روحِ رواں ہیں اور سودی نظام کے متبادل اسلامی درہم و دینار پر مبنی بلاسود معاشی نظام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کئی بار سود کے خلاف عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے گئے۔
ہر کوئی سوال یہ پوچھتا تھا کہ ’’سودی نظام کا متبادل کیا ہے؟ اب عمر ابراہیم وڈیلو صاحب نے ستر صفحات پر مشتمل ایک متبادل نظام تحریر کر کے پیش کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت ضیاء الحق نے بنائی تھی اور ساتھ یہ پابندی لگا دی تھی کہ یہ مالی معاملات کے بارے میں دس سال تک کوئی کیس نہیں سن سکے گی۔
جیسے ہی 1991ء میں پابندی ختم ہوئی، لوگ وفاقی شرعی عدالت میں چلے گئے۔ شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ نواز شریف حکمران تھے، وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔ اس کے بعد بے نظیر، پھر نواز شریف، سب کے دور میں یہ کیس لٹکتا رہا۔ پرویز مشرف نئے نئے تخت نشین ہوئے تھے کہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ایک دم ایوانوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ ایک نجی بینک کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل کروائی گئی۔ تمام عدالتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نئے بنچ نے پہلے بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پھر اس کی جگہ خود فیصلہ لکھنے کے بجائے کیس کو لٹکانے کے لیے واپس وفاقی شرعی عدالت میں بھیج دیا۔ گزشتہ دس سال سے یہ کیس وہاں گرد آلود فائلوں میں پڑا تھا۔
21 اکتوبر 2013ء کو وفاقی شرعی عدالت میں ایک بار پھر اس بحث کا آغاز ہوا کہ سود حرام ہے یا حلال؟ کون سا سود حرام ہے اور کیا موجودہ دور میں سود کو ترک کر کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ شریعت کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ تک ہر کوئی ایک ہی سوال کرتا تھا کہ ’’سودی نظام کا متبادل کیا ہے؟‘‘ لیکن اب درہم و دینار تحریک کے روحِ رواں عمر ابراہیم وڈیلو نے ستر صفحات پر مشتمل ایک متبادل نظام تحریر کیا اور اسے نئی اپیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جو بلا شبہ اس باہمت نومسلم شخص کا ایک کارنامہ ہے۔ اب عمر ابراہیم لاہور میں شادی کر کے مستقل طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔
Prev Post
Next Post