قسط نمبر4
سید ارتضی علی کرمانی
بھوئی کے درس میں آپ نے دو اڑھائی برس میں رسائل منطق ’’قطبی‘‘ تک اور نحو اور اصول کے درمیانہ اسباق کی تعلیم حاصل کی۔ اسی زمانہ کا ایک یادگار واقعہ لوگوں کو یاد رہتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ بھوئی کے قریبی گاؤں میں کوئی شخص فوت ہوگیا۔ اس وقت کے دستور کے مطابق ورثا نے اردگرد کے معززین، عوام اور دینی مدرسوں سے طلباء اور استاتذہ کرام کو برائے ایصال ثواب جمع کیا۔
اسی اثناء میں گڑھی افغاناں اور بھوئی کے طالب علموں کے درمیان کوئی علمی بحث چھڑ گئی۔ لوگ حلقہ بنائے سوال و جواب سن رہے تھے۔ اس بات کی اطلاع جب حضرت صاحبؒ کو ملی تو آپ بھی سننے کے لیے تشریف لے گئے۔ مگر مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ کو نہ تو کچھ نظر آیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔ ایک صاحب سے کہا کہ مجھے کندھوں پر اٹھا کر دائرہ کے اندر پہنچا دو تو اس نے کہا کہ اندر داڑھیوں والے طلباء بحث کر رہے ہیں۔ تم بچے ہو کر کیا کرو گے۔ آپ نے جب بہت زیادہ اصرار کیا تو ان صاحب نے آپ کو اندر پہنچا دیا۔ جس جگہ بحث زور و شور سے جاری تھی۔
اس وقت گڑھی افغاناں کے دو فارغ التحصیل طلباء جو ہندوستان اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے گئے ہوئے تھے اور ان دنوں چھٹیوں کی وجہ سے یہاں نظر آرہے تھے۔ بھوئی کے طلباء سے سوالات و جوابات کر رہے تھے اور اپنی علمیت اور فضیلت کی وجہ سے ان پر چھائے ہوئے تھے۔
مگر حضرت صاحب کے سوالوں کے ان کے پاس جوابات نہ تھے۔ حضرت صاحب کے پے در پے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہ بن آیا۔ چنانچہ استاتذہ کرام نے آپ کو فاتح قرار دے دیا۔ گڑھی افغاناں والوں نے اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کیا کہ ان کے لائق فائق طلباء کو ایک نو عمر بچے نے شکست سے ہمکنار کر دیا۔ انہوں نے اس وقت بڑے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ گڑھی افغاناں کے طلبہ کہیں رات کو اس نو عمر بچے کو اٹھا کر نہ لے جائیں۔ چنانچہ آپ کی حفاظت کی غرض سے بھوئی والے راتوں کو پہرہ دیتے رہے۔
بھوئی کے درس سے فراغت کے بعد آپؒ نے موضع انگلہ علاقہ نوشہرہ ضلع شاہ پور کی معروف درس گاہ کا قصد فرمایا۔ یہاں حضرت صاحب کے ایک ہم مکتب فقیر نادر دین پہلے ہی داخل ہو چکے تھے۔ موضع انگلہ علاقہ سون شاہ پور سرگودھا میں گولڑہ شریف سے ایک سو میل کے فاصلے پر ہے۔ آپ وہاں پہنچ کر اپنے ہم مکتب سے ملے اور ان کو بتایا کہ حضرت صاحبؒ بھی درس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
چنانچہ فقیر نادر دین نے آپ کو استاد محترم سلطان محمود صاحب سے متعارف کروایا۔ فقیر نادر دین کی عمر حضرت صاحبؒ سے کچھ زیادہ تھی۔ مگر وہاں بھی حضرت صاحبؒ کے اعلیٰ دماغ نے سب کچھ بہت کم عرصہ میں حاصل کر لیا اور استاتذہ کو بجا طور پر حیران و ششدر کر دیا۔
وہاں حضرت صاحبؒ نے اپنی موروثی جود و سخا کا مظاہرہ کیا۔ حالانکہ نوجوانی کی عمر تھی۔ مگر آپ اپنا تمام خرچ جو گھر سے آتا تھا، نادار طلباء میں تقسیم کرتے، خود شدید بھوک اور طلباء کے بصد اصرار پر طلباء کے جمع کردہ ٹکڑوں میں سے کچھ تناول فرماتے۔ آپ کے اس جود و سخا، ایثار اور ریاضت کو دیکھ کر طلباء اور عام لوگ آپ کے عقیدت مند ہوگئے۔
انہی ایام کا ذکر ہے کہ اسی گاؤں میں ایک شخص جو خود کو ’’قصیدہ غوثیہ‘‘ کا عامل کہتا تھا۔ اس نے عام لوگوں میں اپنا بڑا اثر و رسوخ قائم کر رکھا تھا۔ اس کی علاقے میں بہت عزت و تکریم تھی۔ لوگ فخریہ اس کے ہاتھوں کو چوما کرتے تھے۔ اتفاق سے وہ شخص انگلہ کی مسجد میں وارد ہوا۔ سب لوگ تعظیم کی خاطر فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر حضرت صاحبؒ اپنے حال میں مگن رہے۔
پوری مسجد میں ایک نوجوان کو اپنی تعظیم کے لیے کھڑے نہ ہوتے دیکھ کر اس نے بڑا برا محسوس کیا اور کہا کہ اے لڑکے کیا تو مجھے نہیں جانتا، پڑھوں قصیدہ؟
آپ نے فرمایا: تم قصیدہ پڑھو، میں قصیدے والے کو بلاتا ہوں۔
ان الفاظ کا اس عامل پر حد درجہ اثر ہوا۔ اس نے جب آپ کی طرف کامل دھیان دیا تو اس پر بہت کچھ واضح ہوا۔ آپ سے معذرت کی اور چلا گیا۔
اس واقعے نے آپ کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے کہ ایک ایسے شخص نے اس نوجوان سے معذرت کی، جس کا اپنا ایک مقام تھا، تو پھر نوجوان کیا مقام رکھتا ہوگا۔
ایک اور واقعہ بہت مشہور ہوا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ انگلہ کی آبادی سے تھوڑے فاصلے پر ایک مسجد ویران تھی۔ لوگوں میں اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں جنات کا بسیرا ہے اور یہ بھی کہ یہ مسجد آسیب زدہ ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص شام کے بعد ادھر کا رخ نہ کرتا۔ لیکن حضرت صاحبؒ ان تمام باتوں کے باوجود بعد از نماز عشاء اپنے وظائف وہاں جا کر ادا فرماتے۔ وظائف کے بعد واپس آ کر مطالعہ اسباق و کتب میں مشغول ہوجاتے۔ اس سلسلے میں آپ فرماتے ہیں کہ اس مسجد میں جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں بعض اوقات وظائف کو اونچی آواز میں بھی پڑھا کرتا تھا اور میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ میری وجہ سے لوگوں کو پریشانی لاحق نہ ہو۔ اس لیے اس پرسکون مسجد میں چلا جایا کرتا تھا۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post