پاکستان اور افغانستان امن و استحکام کی نئی راہ پر

0

پاکستان اور افغانستان نے مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، جبکہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں بھی تیز کردی گئی ہیں۔ انہیں منانے کیلئے دونوں ممالک کے علماء کا اجلاس بلایا جائے گا۔ افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے چین کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز کابل کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی، منتظم اعلیٰ عبد اللہ عبداللہ اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے ساتھ بات چیت کے دوران دو طرفہ تجارتی امور، پاک و افغان امن و استحکام کیلئے ایکشن پلان اور سرحدی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان نے افغانستان سے آنے والی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جلال آباد میں پاکستان کا قونصل خانہ کھولنے کا فیصلہ کرنے کے علاوہ افغان پولیس کو پاکستان میں تربیت دینے کی بھی پیشکش کی گئی۔ پاکستان اور افغانستان دو پڑوسی برادر مسلم ممالک ہیں، لیکن سات عشروں سے ان کے درمیان تعلقات میں زبردست نرمی گرمی واقع ہوتی رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان سوویت یونین کے زیر اثر تھا، جبکہ پاکستان ابتدا ہی سے امریکی کیمپ میں شامل رہا۔ دنیا کی ان دو سپر پاورز کے اختلافات کا اثر پاکستان اور افغانستان پر بھی پڑا۔ پھر جب سوویت یونین افغانستان پر حملہ کرکے اسّی کی دہائی میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا اور اس کے پرخچے اڑنے کے نتیجے میں وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں اس کے غلبہ و تسلط سے آزاد ہوئیں تو خطے کا جغرافیہ بھی تبدیل ہوا اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کا دائرہ بھی وسیع ہونے لگا۔ جنگ اور خانہ جنگی کے ایک مختصر وقفے کے بعد ابھی افغانستان بحالی اور استحکام کے دور سے گزر رہا تھا اور طالبان کی حکومت نے ملک میں امن و امان اور خوشحالی کا آغاز کیا ہی تھا کہ امریکا نے اپنے دو شہروں پر حملے کا الزام القاعدہ پر لگا کر افغانستان پر وحشیانہ حملے شروع کردیئے۔ اس کا مؤقف یہ تھا کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو نہ صرف پناہ دے رکھی ہے، بلکہ افغانستان میں انہیں ٹھکانے اور تربیت کے مواقع فراہم کرکے امریکا سمیت ساری دنیا میں دہشت گردی کے خطرات بڑھا دیئے ہیں۔ امریکا اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود آج تک کسی عالمی فورم پر اپنا یہ الزام ثابت نہیں کر سکا ہے کہ واشنگٹن اور نیو یارک پر گیارہ ستمبر 2001ء کو حملہ کرنے میں القاعدہ کا ہاتھ تھا، بلکہ بعد میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ نائن الیون کی کارروائی یہودیوں اور امریکی محکمہ دفاع کی سازش تھی، جس کا مقصد امریکا کیلئے افغانستان پر حملے کا جواز پیش کرکے جنوبی ایشیا میں اپنے قدم جمانا تھا تاکہ ایک طرف افغانستان کے قدرتی وسائل اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش جاری رہے تو دوسری طرف وہاں بیٹھ کر چین، مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کی ریاستوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس بڑی سازش میں بھارت کو اس کی پاکستان دشمنی کے باعث اہم کردار دینا بھی اس منصوبے کا اہم حصہ رہا۔
امریکا نے سترہ سال تک افغانستان میں رہ کر جہاں افغان باشندوں کو شدید جانی و مالی تباہی سے دوچار کیا، وہیں پاکستان کو بھی سخت نقصان پہنچایا۔ پاکستان میں دہشت گردی کا فروغ ستّر ہزار کے قریب شہریوں اور فوجیوں کی شہادتیں، شاہراہوں اور اہم عمارتوں سمیت انفرا اسٹرکچر کی زبردست تباہی اور کم و بیش ایک کھرب ڈالر کا مالی نقصان افغان جنگ ہی کا شاخسانہ ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی یہ رہی کہ طالبان حکومت کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی امریکا کی کٹھ پتلی حکومتیں پاکستان کی جانب سے ہمدردی اور خیر سگالی کی کوششوں کو قبول و تسلیم کرنے کے بجائے الٹا پاکستان ہی کو اپنے ملک کی تباہی کا ذمے دار قرار دیتی رہیں۔ حامد کرزئی سے اشرف غنی تک افغان حکومتوں نے کبھی مطلب نکالنے کیلئے پاکستان کی حمایت و چاپلوسی کا راستہ اختیار کیا تو اکثر امریکا اور بھارت کی بولی بولتے ہوئے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا طوفان کھڑا کئے رکھا۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں ہوا کہ پاکستان اور افغانستان کا امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ ہونے والے تمام مذاکرات اور گفت و شنید میں باہم اتفاق و اتحاد اور یک جہتی و ہم آہنگی کے اعلانات ضرور ہوئے، لیکن کچھ روز گزرنے نہیں پاتے کہ افغانستان کی جانب سے وہی دہشت گردی کے الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت نے بھی اپنے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو افغانستان بھیج کر خطے کے مسائل پر گفتگو اور باہم امن و تعاون کی فضا ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ حسب معمول دونوں نے مفاہمتی عمل آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگلے چند روز میں اشرف غنی حکومت کونسا نیا شوشہ چھوڑ دے۔ طالبان سے مذاکرات پر افغان حکومت کی آمادگی اور چین کو امن عمل میں شریک کرنے پر اتفاق حالیہ پاک و افغان مذاکرات کے خوش آئند پہلو ہیں۔ طالبان کی شرکت کے بغیر افغانستان میں قیام امن ہمیشہ ایک خواب رہے گا۔ اسی طرح پاکستان اور چین پڑوسی کی حیثیت سے تباہ شدہ افغانستان کی بحالی، استحکام اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ افغان حکمرانوں کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ نام ہی کے لحاظ سے دونوں ممالک ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ نہیں کہلاتے، بلکہ ان کے درمیان گہرے دینی، تاریخی، تمدنی و ثقافتی یہاں تک کہ خاندانی رشتے قائم ہیں۔ پاکستان اس تلخ حقیقت کو فراموش کر چکا ہے کہ 1947ء میں آزادی کے وقت افغانستان وہ ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں پاکستانی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ سوویت یونین اور امریکی حملوں کے بعد پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کسی پر کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ امت مسلمہ کے رکن کی حیثیت سے یہ اس کا دینی فریضہ تھا۔ ایک حدیث پاک کی رو سے تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اہل پاکستان اپنے افغان بھائیوں سے گہری محبت اور ہمدردی رکھتے اور دعا کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان بھی اخوت و محبت اور ہمدردی و خیر سگالی کے جذبات فروغ پائیں اور وہ اپنے علاوہ خطے کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کرکے اقوام عالم کی صفوں میں نمایاں مقام حاصل کرسکیں۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More