امت رپورٹ
ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے ہمدردی کے ووٹ پر تکیہ کر لیا۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 26 سیٹوں پر اگلے ماہ کی 14 تاریخ کو ضمنی الیکشن ہوں گے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو سب سے زیادہ دلچسپی لاہور میں خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی دو نشستوں این اے 131 اور این اے 124 میں ہے۔ ان میں سے ایک سیٹ عمران خان اور دوسری نشست حمزہ شہباز نے خالی کی تھی۔ پارٹی ذرائع کے بقول ضمنی الیکشن کے نتائج سے پارلیمنٹ میں اگرچہ کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں، تاہم نون لیگ لاہور سے قومی اسمبلی کی دو سیٹیں جیت کر ایک تو اپنے فائر برانڈ رہنمائوں شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد کو قومی اسمبلی میں لانا چاہتی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ضمنی الیکشن کے ذریعے پرکھنا چاہتی ہے کہ کلثوم نواز کی وفات کے بعد مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو ہمدردی کا کتنا ووٹ پڑ سکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی کو لاہور کے حلقے این اے 124 سے لڑانے کا فیصلہ اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کر لیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے چند روز بعد بیگم کلثوم کا انتقام ہوا۔ 25 جولائی کے عام انتخابات میں شاہد خاقان عباسی کو قومی اسمبلی کی دو سیٹوں این اے 57 مری اور این اے 53 اسلام آباد سے شکست ہوئی تھی۔ اسلام آباد کی نشست پر شاہد خاقان عباسی کو عمران خان نے شکست دی۔ بعد ازاں انہوں نے یہ نشست خالی کر دی۔ ذرائع کے مطابق شاہد خاقان عباسی اس سیٹ پر ضمنی الیکشن لڑنے کے خواہش مند تھے۔ تاہم پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے انہیں لاہور سے حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست پر ضمنی الیکشن لڑنے کی ہدایت کی، تاکہ ان کی فتح کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق بالخصوص نواز شریف کو خدشہ تھا کہ شاہد خاقان عباسی ضمنی الیکشن میں اسلام آباد سے دوبارہ شکست کھا سکتے ہیں۔ تاہم لاہور کے حلقے 124 میں ان کی فتح کے بہت زیادہ امکانات ہیں، لہٰذا نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے شاہد خاقان عباسی کو لاہور سے میدان میں اترنے کی ہدایت کی۔ پارٹی ذرائع کے مطابق شاہد خاقان عباسی جس طرح وزیر اعظم بننے کے بعد بھی نواز شریف کا بیانیہ لے کر چلے اور یہ کہ اڈیالہ جیل میں نواز شریف سے نہایت جذباتی ملاقاتیں کیں۔ ان عوامل نے نواز شریف کے دل میں شاہد خاقان عباسی کے لئے مزید جگہ بنا دی ہے۔ نون لیگ سے اپنی وابستگی کے 31 سالہ دور میں شاہد خاقان عباسی کئی مواقع پر نون لیگ سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ پھر یہ کہ شریف برادران سمجھتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی کے قومی اسمبلی میں آ جانے سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف مضبوط ہو جائیں گے۔
این اے 124 لاہور حمزہ شہباز کا مضبوط حلقہ ہے۔ 25 جولائی کے عام انتخابات میں یہاں حمزہ شہباز کے ہاتھوں پی ٹی آئی کے امیدوار نعمان قیصر نے 70 ہزار ووٹوں کے بڑے فرق سے شکست کھائی تھی۔ نون لیگ لاہور کے ایک عہدیدار کے بقول گوالمنڈی، شالمی گیٹ، بھاٹی اور بازار حسن سمیت دیگر علاقوں پر مشتمل این اے 124 میں حمزہ شہباز کی مقبولیت کا سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں ہیلتھ، ایجوکیشن اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں حلقے کے بے شمار لوگوں کو نوکریاں دیں۔ جبکہ وہ حلقے کے عوام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیگی قیادت کو یقین ہے کہ شاہد خاقان عباسی اس سیٹ پر ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے قومی اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔ فتح کو یقینی بنانے کے لئے شہباز شریف نے حمزہ شہباز کو شاہد خاقان عباسی کی انتخابی مہم کا فوکل پرسن بنایا ہے۔ دوسری جانب این اے 124 میں شکست کھانے والے پی ٹی آئی کے امیدوار نعمان قیصر کی جانب سے ضمنی الیکشن لڑنے سے انکار کے بعد غلام محی الدین دیوان اور محمد مدنی کے نام زیر گردش رہے۔ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت نے غلام محی الدین دیوان کو شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ غلام محی الدین آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ انہوں نے 2016ء میں نون لیگ کے امیدوار غلام عباس میر کو شکست دے کر ایل اے 37 سے کامیابی حاصل کی تھی۔
لاہور میں قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی دوسری نشست این اے 131 بھی نون لیگ کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ 25 جولائی کے الیکشن میں اس سیٹ سے خواجہ سعد رفیق کو عمران خان کے ہاتھوں محض ساڑھے چھ سو سے زائد ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ لیگی قیادت کا خیال ہے کہ اس بار عمران خان جیسے بھاری بھرکم حریف کے نہ ہونے اور اس حلقے میں ٹکٹ کے حصول پر پی ٹی آئی کے اندرونی جھگڑوں کے نتیجے میں نون لیگ کے ہاتھ یہ سیٹ بھی آ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق آج کل حلقے میں پوری توانائی کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما اور علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال این اے 131 سے ضمنی الیکشن لڑنے کے خواہشمند تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اپنے طور پر انتخابی مہم بھی شروع کر دی تھی۔ حلقے کے کئی علاقوں میں ان کے بینرز آویزاں کئے گئے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت نے ولید اقبال کی خواہش کو نظر انداز کر کے ٹکٹ مرحوم جنرل اختر عبدالرحمن کے بیٹے ہمایوں اختر کے حوالے کر دیا۔ ہمایوں اختر نے کچھ عرصہ پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی ہارون اختر نون لیگ کے سینیٹر ہیں۔ ذرائع کے مطابق این اے 131 ہمایوں اختر کا آبائی حلقہ ہے۔ دونوں بھائی ماضی میں اس حلقے سے لیگی ٹکٹ پر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ عمران خان نے ہمایوں اختر سے وعدہ کیا تھا کہ این اے 131 کی سیٹ چھوڑنے کے بعد ضمنی الیکشن کے لئے انہیں ٹکٹ دیا جائے گا۔ تاہم ولید اقبال اس میں رکاوٹ بن گئے۔ ذرائع کے بقول بعد ازاں پارٹی قیادت نے طے شدہ پلان کے تحت اس حلقے سے ابرار الحق کے کاغذات نامزدگی بھی داخل کرا دیئے، جو عام انتخابات میں نارووال سے شکست کھا گئے تھے۔ بعد ازاں ابرار الحق اور ولید اقبال سے کہا گیا کہ این اے 131 چونکہ دونوں کا آبائی حلقہ نہیں، لہٰذا وہ ہمایوں اختر کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس پر ابرار الحق کو تو اس لئے اعتراض نہیں ہوا کہ یہ سب کچھ پلان کے مطابق ہوا۔ تاہم ولید اقبال اس فیصلے پر ناراض ہیں۔ لیکن ان کے حامی ہمایوں اختر کی انتخابی مہم کو برائے نام متاثر کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس حلقے میں ولید اقبال کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں۔ عہدیدار کے مطابق پی ٹی آئی قیادت کا خیال ہے کہ خواجہ سعد رفیق کے برعکس حلقے کے لوگوں سے میل جول رکھنے والے ہمایوں اختر ضمنی الیکشن جیت جائیں گے۔ لیکن یہ ایک ٹف مقابلہ ہو گا۔ عہدیدار نے بتایا کہ عام انتخابات میں این اے 131 سے عمران خان کی کامیابی میں ہمایوں اختر کا بھی اہم کردار تھا۔ انہوں نے علیم خان کے ساتھ مل کر ڈور ٹو ڈور عمران خان کی انتخابی مہم چلائی تھی۔
ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی جن 11 سیٹوں پر ضمنی الیکشن کرایا جا رہا ہے ان میں سے 8، این اے 60 اور 63 راولپنڈی، این اے 65 چکوال، این اے 56 اٹک، این اے 69 گجرات، این اے 103 فیصل آباد اور این اے 131 اور 124 لاہور پنجاب میں ہیں۔ جبکہ ایک سیٹ این اے 53 اسلام آباد اور دو سیٹیں این اے 35 اور این اے 243 بالترتیب بنوں اور کراچی کی ہیں۔ ان گیارہ سیٹوں میں سے چھ تحریک انصاف کی خالی کردہ ہیں۔ دو مسلم لیگ ’’ق‘‘ نے اور صرف ایک نون لیگ کے امیدوار نے خالی کی تھی۔ لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر کلثوم نواز کی وفات کے بعد پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر نے کام دکھا دیا تو وہ ان گیارہ میں سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی 26 سیٹوں میں سے نصف درجن نشستیں حاصل کر سکتی ہے ۔
٭٭٭٭٭
Next Post