لاہور؍راولپنڈی(نمائندگان امت )سابق وزیر اعظم نواز شریف ، بیٹی مریم،داماد محمد صفدر کو پیر کو پیرول میں دی گئی توسیع کی مدت مکمل ہونے پر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ تینوں کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور سے نور خان ایئربیس چکلالہ منتقل کیا جہاں سے انہیں ایک خصوصی اسکواڈ کی سیکورٹی میں اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔اڈیالہ جیل کے 3افسران بھی اسی طیارے میں سوار تھے ۔نواز لیگ کے صدر شہباز شریف نے بھی اسی طیارے میں نواز شریف کے ہمراہ سفر کیا ۔جاتی امرا سے روانگی کے موقع پر جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب کا کہنا ہے کہ حکومت کو نواز شریف، بیٹی مریم اور داماد محمد صفدر کی جانب سے پیرول میں توسیع کی کوئی درخواست نہیں ملی۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پیرول پر رہائی کا وقت ختم ہونے کے باعث پیر کو ایک بار پھر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔تینوں کو بیگم کلثوم نواز شریف کے انتقال کے فوری بعد پنجاب حکومت نے ابتدائی طور پر 12گھنٹے کیلئے پیرول پر رہائی دی تھی جس میں اگلے ہی روز صوبائی کابینہ نے 5دن کی توسیع دیدی تھی جس کی مدت پیر کو سہ پہر 4بجے پوری ہو گئی ۔نواز شریف اور مریم نے جیل واپسی سے قبل جاتی امرا میں میاں محمد شریف، بیگم کلثوم نواز و عباس شریف کی قبروں پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔جیل واپسی کے موقع پر اہل خانہ سے ان کی الوداعی ملاقات میں جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ نواز شریف ،مریم نواز اور محمد صفدر نے تمام اہل خانہ سے الگ الگ ملاقات ۔سابق وزیر اعظم نے بیٹی اور داماد کے ہمراہ اپنی والدہ بیگم شمیم اختر سے بھی ملے جو بیٹے کو گلے لگا کر رو پڑیں اور انہیں بوسہ دیا اور تینوں کو دعاؤں کے ساتھ روانہ کیا ہے۔ ملاقات میں نواز شریف نے والدہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مشکل وقت زندگیوں میں آتے رہتے ہیں ، ہمت ہارنا نہ ہی پریشان ہونا۔ اس دوران مریم غم سے نڈھال نظر آئیں ۔ جس کے بعد تینوں رہنما واپس جیل جانے کیلئے گھر سے روانہ ہوئے ۔ صدر نواز لیگ شہباز شریف کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد اور پارٹی رہنما بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب کا کہنا ہے کہ حکومت کو نواز شریف، بیٹی مریم اور داماد محمد صفدر کی جانب سے پیرول میں توسیع کی کوئی درخواست نہیں ملی۔
اسلام آباد(نمائندہ امت)سپریم کورٹ نے شریف فیملی کی سزا معطلی کی درخواستیں پہلے سننے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف نیب کی درخواست20 ہزار جرمانے کے ساتھ خارج کر دی ہے ۔احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل مل کیس کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر جرح کے دوران والیوم 10 سے متعلق سوال پر پراسیکیوٹر نیب نے اعتراض اٹھا دیا۔سپریم کورٹ نے شریف فیملی کی سزا معطلی کی درخواستیں پہلے سننے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف نیب کی درخواست20 ہزار جرمانے کے ساتھ خارج کرتے ہوئے اسے غیر سنجیدہ قرار دیا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم میں کیا غیر قانونی کام ہے؟۔کون سی درخواست پہلے سننی ہے یہ فیصلہ ہائی کورٹ نے کرنا ہے، انصاف ہونا چاہیے ، احتساب عدالت اپنی کارروائی میں آزاد ہے۔ کوئی چیز قانون سے باہر ہوئی تو ہمارے پاس آ جائیں۔عدالتوں میں وکلا کے کہنے پر روز ہی ایسے ہی کیا جاتا ہے۔نیب نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے حکم لکھوایا کہ وہ شریف فیملی کی اپیلیں پہلے سنے گی لیکن پھر خود ہی حکم نامہ تبدیل کر کے سزا کی معطلی کی درخواستوں کو پہلے سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے ۔ ہائی کورٹ نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی سزا معطل نہیں کرسکتی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نیب کو نوٹس دیے بغیر نواز شریف و دیگر کی درخواستوں پرسماعت جاری رکھے ہوئے ہے۔نیب کا موقف لیے بغیر شریف فیملی کی سزا معطل کی جاسکتی ہے نہ ہائی کورٹ کو سزا معطلی کا اختیار ہے۔نیب نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو سزا معطلی کے حوالے سے نواز شریف, مریم نواز و ان کے شوہر محمد صفدر کی درخواستوں پر سماعت سے روکے۔واضح رہے کہ پیر کو سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں کی سماعت منگل تک موخر کر دی۔ دوسری جانب احتساب عدالت نمبر 2 کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں پیر کو نواز شریف کیخلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت ہوئی ۔خواجہ حارث کی پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر جرح جاری تھی کہ نیب وکیل نے والیوم 10 سے متعلق سوال پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ دستاویز رجسٹرار کی موجودگی میں سیل کی جاچکی ہے ۔وہ سربہمرلفافے میں سپریم کورٹ کے پاس ہے۔اس حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا۔عدالت انہیں والیوم ٹین کے حوالے سے سوالات کرنے سے روک دے۔اس حوالے سے الگ سے درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے موکل کی غیر حاضری کے باعث استثنیٰ کی درخواست دی جسے عدالت نے منظور کر لیا ۔والیوم ٹین کے حوالے سے سوال پر واجد ضیا نے جواب میں کہا کہ ڈیڑھ سال پرانی بات پوچھی جا رہی ہے جو اب مجھے یاد نہیں۔اس سوال پر کہ والیوم 10 ان کی موجودگی میں سیل ہوا؟واجد ضیا نے جواب دیا کہ والیوم ٹین میرے سامنے سیل کیا گیا، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ سپریم کورٹ میں ریکارڈ پہنچانے سے پہلے والیوم ٹین سیل کیا گیا تھا ۔کسی عدالتی آرڈر شیٹ سے واضح نہیں کہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں والیوم ٹین سیل کر کے جمع کرایا گیا ہو۔نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے جے آئی ٹی رپورٹ کے سربمہر والیوم ٹین سے متعلق سوالات کئے جانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ وہ خواجہ حارث کو والیوم ٹین پر سوالات کی اجازت نہ دی جائے۔یہ سوال جرح میں طے نہیں کیا جا سکتا، اس سے متعلق الگ پٹیشن دائر کی جا سکتی ہے۔اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کا وہ آرڈر کہاں ہے جس میں والیوم ٹین سربمہر کر کے پبلک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہو؟۔نیب وکیل نے کہا کہ اگر خواجہ حارث کو والیوم 10نہ ملنے کا اعتراض تھا تو اس کے حصول کی درخواست دیتے،اب وہ گواہ سے اس پر سوالات نہیں کر سکتے۔خواجہ حارث نے کہا کہ گواہ نے دوران جرح ایم ایل ایز کا ذکر کیا ہے اور بتایا کہ باہمی قانونی معاونت کے تحت لکھے گئے خطوط سربمہر والیوم ٹین میں ہیں۔جب جرح میں ذکر آیا ہے تو اس پر سوال کرنا سوال بنتا ہے۔کوئی چیز میرے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو مجھے دفاع کا حق حاصل ہے۔خواجہ حارث کے سوال پر واجد ضیا نے کہا کہ 24 جولائی 2017 کو والیوم 10 بائنڈنگ شکل میں جمع کرایا گیا۔خواجہ حارث کے اس سوال پر کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ والیوم 10 کی ایک کاپی سماعت کے دوران مجھے دکھائی گئی تھی ؟۔واجد ضیا نے کہا کہ میڈیا پر سنا تھاکہ آپ کو کاپی دکھائی گئی۔نیب وکیل کے اعتراض پر عدالت نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ گاہ جس سماعت میں نہیں تھے، اْس بارے میں سوال نہ پوچھا جائے۔سماعت کے دوران خواجہ حارث نے31 مئی 2017 کو سعودی حکام کو تحریر ایم ایل اے ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی جس کی نیب نے مخالفت کی۔