سیلانی رات ہی سے عجیب سی کیفیت کا شکار تھا، رہ رہ کر اس کی نظروں کے سامنے کفن میں لپٹا ایک غریب محنت کش کا لاشہ پھر رہا تھا، جسے نوچنے کے لئے سرکاری گدھ بے چین تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ انسان پست ہونے پر آئے تو پستی بھی ہاتھ جوڑ کر ایک طرف ہو جاتی ہوگی… رات سیلانی ٹھیک سے سو نہیں سکا، اسے جلد سونے کی عادت ہے، لیکن رات نیند نہیں آرہی تھی، وہ آنکھیں بند کرتا تو اس کے سامنے بونیر کے انضمام کا چہرہ گھوم جاتا اور وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتا۔ وہ دیر تک بستر پر کروٹیں بدلتا رہا، نجانے کس پہر نیند آئی۔ صبح ہوئی تو رات کی کمخوابی اس کی آنکھوں سے عیاں تھی۔ وہ شیث خان کو موٹر سائیکل پر میٹرو کے اسٹاپ پر چھوڑ کر گھر پہنچا ہی تھا کہ منظور پشتین صاحب کے ایک فکری مصاحب اس کے سر ہو گئے۔ صاحب گل نامی نوجوان سیلانی سے منظور پشتین کی مخالفت کا صبح سویرے حساب لینے چلا تھا۔ سیلانی نے سمجھانے کی بہتیری کوشش کی کہ منظور پشتین سے وہ کبھی زندگی میں نہیں ملا، نہ ہی ایسی کوئی تمنا آرزو ہے، اس سے کوئی لین دین کا بھی جھگڑا ہے نہ ذاتی دشمنی ہے، جھگڑا ہے تو پاکستان کا ہے، وہ اور اس کے چیلے پاکستان کو گالیاں دینا چھوڑ دیں، وطن دشمنوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنا چھوڑ دیں تو پھر کہاں کی مخالفت اور کہاں کی ناراضگی؟ لیکن جب بات پاکستان کی ہو تو پھر دوسری بات نہیں سنی جا سکتی۔ جواب میں صاحب گل نے وہی منطق اختیار کی کہ منظور تو ظالم کو ظالم کہہ رہا ہے، مظلوم قبائلیوںکے لئے آواز اٹھا رہا ہے… آپ نے اب حق سچ کی راہ چھوڑ دی ہے یا مصلحت کا شکار ہوگئے ہو؟
’’بھائی! قبائلیوں کے مسائل پر میں نے ایک بار نہیں، کئی بار لکھا ہے، چیک پوسٹوں پر روا رکھے جانے والے رویئے پر صرف لکھا ہی نہیں ہے، اداروں کے بڑوں سے بات بھی کی ہے، وہاں منہدم ہونے والے مکانات کے سروے میں گھپلوں کی شکایات بھی ریکارڈ پر لایا ہوں، لیکن یہ سب کچھ میں نے کسی گالم گلوچ کے بغیر کیا ہے، اس لئے آپ کی تشفی نہیں ہوئی اور ہوگی بھی نہیں، کیوں کہ میرے قلم نے کبھی بھی پشتونستان کی سرحدوں کا رخ نہیں کیا‘‘۔
سیلانی کی عادت ہے کہ وہ فون پر عموماً بحث مباحثے سے گریز کرتا ہے، یہاں بھی وہ یہی چاہ رہا تھا، لیکن فون کرنے والا نوجوان کسی صورت سیلانی کو بخشنے کو تیار نہ تھا۔ مجبوراً سیلانی کو کہنا پڑا کہ اسے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں اور بحث کے لئے یہ وقت مناسب نہیں، لیکن وہ صاحب تو کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ مجبوراً سیلانی کو لائن کاٹنی پڑی۔
سیلانی نے فون ایک طرف رکھا تو اس کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر بیگم پوچھنے لگیں: ’’کیا بات ہے، آپ رات سے کچھ پریشان ہیں، خیریت تو ہے ناں؟‘‘
’’اپنی جان سلامت رہے تو خیریت ہی ہے۔‘‘
’’ہوا کیا؟‘‘
’’پھر بتاؤں گا۔‘‘ مزاج آشنا شریک حیات خاموش ہوگئیں اور سیلانی بستر پر آنکھیں موندے لیٹ گیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر وہی کفن پوش باریش نوجوان گھوم گیا، جو بونیر کے سرسبز پہاڑوں سے اتر کر کراچی کے گرد پھیلی ساحل کی ریت کو چومنے والی لہروں میں اپنا رزق تلاش کرنے آیا تھا۔ سرخ و سپید رنگت والا پچیس سالہ انضمام کبھی کراچی کا رخ نہ کرتا اگر بونیر کے پہاڑوں میں ہی اس کی روزی روٹی کا انتظام ہو جاتا اور وہ اس کے خاندان پر چڑھا قرض اتارنے میں کچھ مدد کرتے، لیکن ان سرسبز پہاڑوں میں جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہے ہی کیا؟ اسے بھی دیگر بونیریوں کی طرح غریب پرور کراچی کا رخ کرنا پڑا، اس کے گاؤں کے بہت سے نوجوان کراچی میں قسمت آزما رہے تھے۔
انضمام بھی کراچی میں آگیا، اسے ایک دوست کے توسط سے فشریز میں لانچ پر کام مل گیا، سخت کوش نوجوانوں کے لئے سمندر مہربا ن رہتا ہے، سمندر کی لہروں پر ہچکولے کھاتی لانچیں جب پندرہ بیس روز بعد واپس پلٹتی ہیں تو ان کے برف خانوں میں کئی خاندانوں کا رزق ہوتا ہے۔ نوجوان انضمام بھی ماہی گیر بن گیا اور سمندر سے اپنے حصے کا رزق تلاش کرنے لگا۔ چھ ستمبر 2018ء کو بھی وہ فشریز کی جیٹی میں لانچ پر کھڑا ناخدا کی مدد کر رہا تھا، انتظامیہ کی بد انتظامی کی وجہ سے دھکم پیل کا سا منظر تھا۔ سمندر سے آنے والی لانچیں جیٹی تک پہنچنے کے لئے جگہ تلاش کر رہی تھیں اور یہ کام اس وقت خاصا مشکل تھا۔ انضمام لانچ کے کونے پر کھڑا ناخدا کی مدد کر رہا تھا کہ دوسری سمت سے آنے والی لانچ کے اگلے حصے نے انضمام کو اچھال کر لانچ میں پھینک دیا۔ یہ ٹکر ایسی خطرناک اور اچانک تھی کہ اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا، اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ انضمام چکرا کر نیچے گرا، وہاں موجود ماہی گیر مدد کو لپکے۔ انضمام کا چہرہ تکلیف کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ شدید کرب میں تھا۔ ماہی گیر اسے لے کر لانچ سے نیچے اترے اور کھارادر میں واقع کتیانہ میمن اسپتال لے کر پہنچے، جہاں ڈاکٹروں نے انضمام کی نبض دیکھ کر نفی میں گردن ہلاتے ہوئے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ انضمام کی کہانی اختتام کو پہنچ گئی اور اس کے بعد لالچ، حرص، بے حسی، سفاکی کی ایک اور کہانی شروع ہوئی، جس کا مرکزی کردار پولیس کی وردی میں ملبوس وہ بدکردار لوگ ہیں، جنہیں قبول کرنے سے شاید قبر بھی انکاری ہو۔
انضمام کی موت کے بعد فشریز کے مزدوروں نے اس کی لاش گاؤں پہنچانے کے لئے چندہ شروع کیا۔ کسی نے پانچ سو روپے دیئے اور کسی نے ہزار۔ مچھر کالونی میں بونیر کے رہائیشیوں کی چملہ آمازی ویلفیئر ٹرسٹ کو خبر ہوئی تو اس نے سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اسپتال کی کارروائی سے فارغ ہو کر ڈاکس پولیس اسٹیشن کا رخ کیا گیا تاکہ تھانے سے راہداری بنوا کر لاش طیارے کے ذریعے بونیر روانہ کی جائے۔ ٹرسٹ کے ذمہ دار ایس ایچ او نذیر احمد کے پاس پہنچے تو اس نے متوفی کے والد کو حاضر ہونے کی شرط لگا دی۔ اسے سمجھایا گیا کہ بوڑھا باپ یہاں نہیں، بونیر میں ہے، اسے کہاں سے لایا جائے، یہ لاش بھی صدقہ خیرات، عطیات کی رقم سے بھجوا رہے ہیں، کچھ احساس کریں۔ تھانیدار نے احساس یہ کیا کہ فشری کے چوکی انچارج سہیل سے رابطے کی ہدایت کر دی۔ لاش دیکھ کر اے ایس آئی سہیل کے منہ میں پانی بھر آیا۔ مردے کو دیکھ کر اس کی آنکھیں کسی گدھ کی طرح چمکنے لگیں۔ سہیل نے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا۔ ایک بجے کی پرواز سے لاش لے جانی تھی، لیکن نہ جا سکی۔ ٹرسٹ کے لوگوں نے فشریز کے چیئرمین حافظ عبد البر سے رابطہ کیا۔ فشریز کے دیگر ذمہ داروں کو فون کئے۔ فشریز کے ناصر بونیری نے اے ایس آئی کو فون کیا کہ لاش کو تو نہ روکو، انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، لیکن اے ایس آئی کے اندر کوئی انسان ہوتا تو اسے انسانیت کی خبر ہوتی۔ لاش کو راہداری نہیں دی گئی اور اس وقت تک نہیں دی گئی جب تک اس کے جیب میں پانچ ہزار روپے ڈال کر ٹھوڑی کو ہاتھ نہ لگائے گئے۔
پانچ ہزار روپے گرچہ کم تھے، ایسے موقعوں پر لواحقین سے اچھی خاصی رقم بٹوری جاتی ہے، معاملہ ہی ایسا ہوتا ہے، دبے لفظوں میں تقاضا کرکے بتایا جائے کہ نیچے سے اوپر تک حساب دینا پڑتا ہے، تو کاندھوں پر لاش لے جانے والے زیادہ بحث نہیں کرتے، دل ہی دل میں گالیاں، بددعائیں دیتے ہوئے وردی والوں کے ہاتھ پر حرام رکھ دیتے ہیں۔ یہاں معاملہ یوں مختلف تھا کہ متوفی کے رشتے دار کنگلے تھے اور اس کے کفن دفن کا انتظام ایک فلاحی تنظیم کر رہی تھی، اس لئے ایس اے آئی سہیل کا دل ’’پسیج‘‘ گیا، اس نے پانچ ہزار روپے سکہ رائج الوقت وصول کرکے راہداری بنا کر ورثاء کے حوالے کر دی۔ اس سارے کام میں سات گھنٹے کی تاخیر ہوگئی۔ اب لاش پشاور کے بجائے اسلام آباد کی پرواز سے روانہ کی گئی، جہاں سے بونیر کا زمینی فاصلہ خاصا ہے۔ ایئر پورٹ سے لاش گاڑی کے ذریعے بونیر پہنچی تو تاریخ بدل چکی تھی۔
سیلانی کو یہ ساری اطلاعات مچھر کالونی کے فلاحی کارکن بشیر بھائی کے توسط پتہ چلیں، جس کے سامنے اے ایس آئی نے پانچ ہزار روپے وصول کئے تھے، وہ تو سچ میں لرز کر رہ گیا کہ کوئی انسان ایسا بھی سفاک ہو سکتا ہے!
سیلانی سے رہا نہیں گیا، اس نے اے ایس آئی سہیل کو اس کے یو فون کے نمبر پر فون کیا، یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ فریق مخالف کا مؤقف سامنے آجائے۔
’’سہیل صاحب؟‘‘ سیلانی نے کال وصول ہونے کے بعد سلام کرنے کے بجائے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔ وہ اس شخص پر کیسے سلامتی بھیجتا، جسے اک انسان اور اپنے مرے ہوئے ہم مذہب پر ترس نہ آیا ہو؟
’’جی بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’سنا ہے آپ لاشوں پر بھی پیسے لیتے ہیں؟‘‘
’’کیا مطلب؟؟‘‘ دوسری جانب سے تیزی سے پوچھا گیا۔
’’آپ یہ بتائیں کہ انضمام کی لاش پر جو پانچ ہزار لئے تھے، وہ واپس کر رہے ہیں یا میں ایس ایس پی صاحب سے بات کروں۔‘‘
’’آپ، آپ کک کون…؟‘‘
’’ امت اخبار سے سیلانی۔‘‘
’’سر! بات ایسی نہیں ہے جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’آپ نے پیسے نہیں لئے؟‘‘
’’سر میں نے مانگے نہیں تھے، آپ کہتے ہیں تو میں جا کر دے دیتا ہوں، جرمانہ بھی بھرنے کو تیار ہوں، لیکن میری بات سن لیجئے۔‘‘
’’سنایئے۔‘‘
’’میں نے کوئی ڈیمانڈ نہیں کی تھی، انہوں نے اپنی مرضی سے پیسے دیئے تھے، میں نے تو پندرہ منٹ میں لاش کی راہداری بنا کر دی تھی۔‘‘
’’واہ،واہ، یہ پہلا کیس دیکھا ہے کہ لاش سامنے پڑی ہو اور پیسے بانٹے جا رہے ہوں…‘‘ سیلانی نے لائن کاٹ دی اور سوچنے لگا کہ اس قسم کے گدھ مزاج پولیس والوںکے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، ان جیسوں کے ہوتے ہوئے پولیس کا امیج بدتر بھی رہ جائے تو غنیمت ہے کہ ان جیسے اہلکار تو فورس کو بدترین بدنامی کا تحفہ دیتے ہیں۔ سیلانی سوچنے لگا کہ پانچ ہزار روپے جیب میں آخر کتنی دیر رہے ہوں گے؟ باٹا کا جوتا لے لیا جائے تو دو ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور پھر اس لاش فروش نے ان پیسوں کو آخر کیسے خرچ کیا ہوگا؟ کیا گھر میں راشن ڈالا ہوگا تو یہ سوچا ہوگا کہ اس کی اولاد کے حلق سے اترنے والا لقمہ کن پیسوں کا ہے؟؟ دوا دارو کیا ہوگا تو لمحہ بھر کے لئے اس کفن میں لپٹی لاش کا خیال نہ آیا ہوگا؟ عیاشی کی ہوگی تو بھی کچھ احساس نہ ہوا ہوگا؟… سیلانی یہ سوچتے ہوئے چشم تصور سے ایک بدترین انسان کو پانچ ہزار کے نوٹ بٹوے میں ڈالتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
Prev Post
Next Post