امت رپورٹ
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مریم سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے سیاسی معاملات میں آج کل مشیر مشاہد حسین ہیں، جو لیگی قائد کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جبکہ وہ اداروں کا سابق وزیر اعظم پر اعتماد بحال کرانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق مقدمات میں گھری پیپلز پارٹی کی قیادت نواز شریف کا کسی صورت ساتھ نہیں دے گی۔ جبکہ نون لیگ کی اتحادی جماعتیں بھی ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔
نواز لیگ میں موجود ذرائع کے مطابق نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ جبکہ اکتوبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے جلسوں میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم اور مریم نواز دونوں قانونی طور پر کسی بھی پارلیمانی عہدے کیلئے نااہل ہیں، اور کسی سیاسی جماعت کا کوئی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے۔ جبکہ ان کی دوبارہ گرفتاری کا بھی امکان ہے۔ خود نواز شریف بھی جانتے ہیں کہ ان کی یہ رہائی عارضی ہے۔ کسی اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں انہیں دوبارہ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پرویز رشید اور دیگر نو واردوں نے نواز شریف کو ان کے مزاج کے برعکس اداروں کے ساتھ متصادم کروادیا تھا۔ تاہم آج کل نواز شریف کے سیاسی معاملات میں مشیر مشاہد حسین ہیں اور وہ انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ جبکہ مشاہد حسین اداروں کا نواز شریف پر اعتماد بحال کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مریم نواز کو بھی خاموش رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ ایسا ہوگا یا نہیں، لیکن ذرائع کے مطابق نواز شریف کے لہجے میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارٹی میں جو لوگ تصادم کا مشورہ دے رہے ہیں، وہ ماضی میں اپنی جماعتوں سے اس لیے نکلے تھے کہ ان کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں پسندیدہ نہیں رہی تھی اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں چلنے والی نواز لیگ میں آگئے تھے۔ دوسری جانب اپوزیشن کا رویہ بھی مایوس کن ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔ سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود نواز لیگ کا چیئرمین سینیٹ نہیں منتخب ہونے دیا اور اپنے لیے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی حاصل کرلیا۔ پھر وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر نون لیگی امیدوار شہبازشریف کو ووٹ نہیں دیا اور غیر جانبدار ہوگئے۔ اس کے جواب میں نون لیگ نے اپنے اتحادی مولانافضل الرحمن کو اعتزاز احسن کے مقابلے پر کھڑا کردیا۔ بیگم کلثوم نواز کی تعزیت پر سابق صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے آنے کے باوجود دونوں پارٹیوں کے درمیان برف نہیں پگھلی ہے۔ مختلف مقدمات میں گھری پی پی قیادت چاہتے ہوئے بھی نواز لیگ کا ساتھ نہیں دے گی۔ اور یہ کہ احتجاج کی صورت میں نواز لیگ کی اتحادی جماعتیں بھی کچھ نہیں کر سکیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں نواز لیگ کی قیادت نے جوش کے بجائے ہوش کا اسلوب اپنانے کو ترجیح دی ہے۔ اس سوال پر کہ میاں نواز شریف کی رہائی کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ ان کے کیس کو نیب نے دانستہ کمزور کرکے پیش کیا، تاکہ ان کی رہائی کی گنجائش نکل سکے، اس میں کتنی صداقت ہے؟ تو ذرائع نے کہا کہ یہ تو نیب والے ہی بتا سکتے ہیں۔ البتہ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان کی سیاست سے انہیں باہر نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کیلئے انہیں فی الوقت ایک عارضی ریلیف ملا ہے۔ اصل فیصلہ ابھی تک موجود ہے۔ نواز شریف کے خلاف دو مزید ریفرنس بھی نیب عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ ان میں کوئی دوسرا ملزم نامزد نہیں ہے۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند روز سے جس طرح سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب پراسیکیوٹر اور شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث کے مابین دلائل کا تبادلہ ہوا اور معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیئے، ان سے یہ تاثر ملا ہے کہ نیب عدالت سے دی جانے والی سزا میں قانونی سقم موجود ہیں۔ ایک موقع پر نیب پراسیکیوٹر بالکل بے بس نظرآرہے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کی معطلی کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب وزیر اعظم عمران خان سرکاری دورے پر سعودی عرب میں شاہ سلمان کے ظہرانے میں شریک تھے۔
٭٭٭٭٭