نواسہ رسولؐ سیدنا حسینؓ کے ساتھ کربلا کے میدان میں جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اپنے رسالہ ’’شہید کربلا‘‘ یا ’’اسوۂ حسینؓ‘‘ میں قاتلان حسینؓ کے عبرتناک انجام کے بارے میں تحریر فرمایا ہے:
جس وقت حضرت حسینؓ پیاس سے مجبور ہو کر دریائے فرات پر پہنچے اور پانی پینا چاہتے تھے کہ کم بخت حصین (بعض اہل تاریخ نے دوسرا نام ذکر کیا ہے) بن نمیر نے تیر مارا جو آپ کے دہن مبارک پر لگا، اس وقت آپ کی زبان سے بے ساختہ بددعا نکلی کہ:
’’خدایا! تیرے رسولؐ کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے، میں اس کا شکوہ تجھ ہی سے کرتا ہوں، خدایا! ان کو چن چن کر قتل کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے فرما دے، ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔‘‘
اول تو ایسے مظلوم کی بددعا پھر نواسہ رسولؐ، اس کی قبولیت میں شبہ کیا تھا، دعا قبول ہوگئی اور آخرت سے پہلے دنیا ہی میں ایک ایک کر کے بری طرح مارے گئے۔
امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ جو لوگ قتل حسینؓ میں شریک تھے، ان میں سے ایک بھی نہیں بچا، جس کو آخرت سے پہلے دنیا میں سزا نہ ملی ہو۔ کوئی قتل کیا گیا، کسی کا چہرہ سخت سیاہ ہو گیا، یا مسخ ہو گیا، یا چند ہی روز میں ملک و سلطنت چھن گئے اور ظاہر ہے کہ یہ ان کے اعمال کی اصلی سزا نہیں، بلکہ اس کا ایک نمونہ ہے، جو لوگوں کی عبرت کے لیے دنیا میں دکھا دیا گیا ہے۔
سبط ابن جوزیؒ نے روایت کیا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی حضرت حسینؓ کے قتل میں شریک تھا، وہ دفعتاً نابینا ہو گیا تو لوگوں نے سبب پوچھا، اس نے کہا کہ میں نے رسول اقدسؐ کو خواب میں دیکھا کہ آستین چڑھائے ہوئے ہیں، ہاتھ میں تلوار ہے اور آپؐ کے سامنے چمڑے کا وہ فرش ہے جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے اور اس پر قاتلان حسینؓ میں سے دس آدمیوں کی لاشیں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں، اس کے بعد آپؐ نے مجھے ڈانٹا اور خون حسینؓ کی ایک سلائی میری آنکھوں میں لگا دی، میں صبح اٹھا تو اندھا تھا۔ (اسعاف)
نیز ابن جوزیؒ نے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے حضرت حسینؓ کے سر مبارک کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا اس کے بعد اسے دیکھا گیا کہ اس کا منہ کالا تار کول ہو گیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ تم سارے عرب میں خوش رو آدمی تھے، تمہیں کیا ہو گیا۔ اس نے کہا جس روز سے میں نے یہ سر گھوڑے کی گردن میں لٹکایا، جب ذرا سوتا ہوں دو آدمی میرے بازو پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ پر لے جاتے ہیں اور اس میں ڈال دیتے ہیں جو مجھے جھلس دیتی ہے اور اسی حالت میں چند روز کے بعد مر گیا۔
نیز ابن جوزیؒ نے سدیؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی۔ مجلس میں یہ ذکر چلا کہ سیدنا حسینؓ کے قتل میں جو بھی شریک ہوا، اس کو دنیا میں بھی جلد سزا مل گئی۔ اس شخص نے کہا کہ بالکل غلط ہے میں خود ان کے قتل میں شریک تھا، میرا کچھ بھی نہیں بگڑا۔ یہ شخص مجلس سے اٹھ کر گھر گیا، جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرتے ہوئے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہیں جل بھن کر رہ گیا۔ سدی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہو چکا تھا۔
جس شخص نے حضرت حسینؓ کے تیر مارا اور پانی نہیں پینے دیا۔ اس پر حق تعالیٰ نے ایسی پیاس مسلط کر دی کہ کسی طرح پیاس بجھتی نہ تھی، پانی کتنا ہی پی جائے پیاس سے تڑپتا رہتا تھا، یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔
شہادت حسینؓ کے بعد یزید کو بھی ایک دن چین نصیب نہ ہوا، تمام اسلامی ممالک میں خون شہدا کا مطالبہ اور بغاوتیں شروع ہو گئیں، اس کی زندگی اس کے بعد وہ سال آٹھ ماہ اور ایک روایت مین تین سال آٹھ ماہ سے زائد نہیں رہی دنیا میں بھی اس کو حق تعالیٰ نے ذلیل کیا اور اسی ذلت کے ساتھ ہلاک کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭