25 دینار میں مظلومیت خریدی!

0

امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ جب شام سے مدینہ لوٹے تو ایک رات اپنی رعایا کا حال و احوال جاننے کیلئے تنہا گشت پر نکلے، ان کا گزر
ایک بڑھیا پر ہوا جو اپنے خیمے میں بیٹھی تھی، آپؓ اس کے پاس گئے، بڑھیا نے آپؓ سے پوچھا: ارے میاں! عمر کا کیا ہوا؟ آپؓ نے جواب دیا: وہ شام سے بخیر و عافیت واپس لوٹ آیا ہے، بڑھیا نے کہا: میری طرف سے تو خدا پاک اسے کوئی بہتر بدلہ نہ دے۔ آپؓ نے فرمایا: وہ کیوں؟ بڑھیا نے کہا: وہ جب سے امیر المومنین بنا ہے، اس کی طرف سے ہمیں کوئی درہم ملا ہے، نہ کوئی دینار۔ آپؓ نے فرمایا: آپ یہاں اس ویرانے میں ہیں، بیچارے عمر کو آپ کا حال کی کیا خبر؟ کہنے لگی: واہ کیا عجیب بات کہی تو نے، بخدا میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ کوئی آدمی لوگوں کی گردنوں پر حاکم مقرر ہو جائے اور پھر اسے مشرق و مغرب میں رہنے والوں کی خبر نہ ہو، یہ سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور اپنے آپؓ سے کہنے لگے:
ہائے عمر! ہر آدمی تجھ سے زیادہ سمجھ دار ہے۔
پھر آپؓ نے اس سے فرمایا: ارے خدا کی بندی! عمر کی طرف سے جو ظلم تجھ پر ہوا وہ تو مجھ کو کتنے کے بدلے فروخت کرے گی؟ میں اسے خریدنا چاہتا ہوں، کیوں کہ جہنم کے سبب مجھے عمر پر بڑا ترس آنے لگا ہے، بڑھیا بولی: خدا آپ کا بھلا کرے، برائے مہربانی مجھ سے مذاق نہ کیجیے، بھلا ظلم بھی کسی نے خریدا؟ آپؓ نے فرمایا: میں مذاق نہیں کر رہا، آپؓ اس سے اس کا دکھ اور اس کی مظلومیت خریدنے پر اصرار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپؓ نے 25 دینار کے بدلے اس سے اس کا دکھڑا خرید لیا، ابھی آپؓ بڑھیا سے باتیں کر ہی رہے تھے کہ اچانک حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعودؓ آپؓ کے قریب آئے اور کہا: امیر المومنین! آپ کو ہمارا سلام ہو۔
’’امیر المومنین‘‘ کا لفظ سن کر بڑھیا کے اوسان خطا ہو گئے، اس نے یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ سر پر دے مارا: ہائے میری کم بختی! میں امیر المومنین کو منہ پرگالی دے بیٹھی۔
حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا: خدا تجھ پر رحم کرے، کوئی بات نہیں، پھر آپؓ نے لکھنے کیلئے دائیں بائیں کاغذ کا ٹکڑا تلاش کیا، مگر کوئی ٹکڑا آپؓ کو نہ ملا، مجبوراً آپؓ نے اپنی پیوند شدہ قمیص کا ٹکڑا پھاڑا اور اس پر درج ذیل چند سطریں تحریر فرمائیں:
’’خدا کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور بے حد رحم کرنے والا ہے… یہ اس بات کی تحریر و دستاویز ہے کہ جب سے عمر حاکم بنا ہے اس دن سے لے کر فلاں تاریخ تک بڑھیا کے ساتھ جس قدر ناانصافی ہوئی، وہ عمر نے 25 دینار کے بدلے خریدلی ہے، اب بڑھیا میدان حشر میں خدا کے سامنے عمر کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کرے گی، عمر اس سے بری ہو چکا، علیؓ بن ابی طالب اور ابن مسعودؓ اس سودے کے گواہ ہیں۔‘‘
کپڑے کے ٹکڑے پر لکھی یہ دستاویز آپؓ نے اپنے بیٹے کے حوالے کر دی اور ان سے فرمایا: جب میں مر جاؤں تو اسے میرے کفن میں رکھ دینا، اس کے ساتھ ہی میں اپنے پروردگار سے ملوں گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More