میرے لیے ملئی دوست ابراہیم بن معروپ کی بڑی بیٹی عینی ملاکا میں ہمارے ہاں رہی اور پل بڑھ کر جوان ہوئی۔ وہ گزشتہ سال ایک ہفتے کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ کراچی میں ہمارے ہاں رہ کر گئی تھی۔ اس کا اور شادی کے بعد اس کے شوہر ظہیر کا ہمیشہ اصرار رہا کہ ہم ان کے ہاں کوالالمپور میں ٹھہرا کریں۔ جہاں وہ دونوں اعلیٰ ملازمتوں پر ہیں۔ لیکن میں ان کے ہاں ٹھہرنا نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ ملئی لوگ کھانے پینے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے ہاں رہ کر بھی گئے تھے تو یقیناً یہ ’’قرض‘‘ اتارنے کے لیے وہ بھی دعوتیں کرتے اور اپنی مرضی سے مجھے اپنے ساتھ لیے پھرتے۔ اس طرح کے تکلف میں میری آزادی ختم ہو جاتی۔ عینی مجھے اپنے دوستوں سے ملنے کا موقع دینے کے بجائے اپنی بہن سے ملانے لے جاتی۔ اگر میں ان سے ملنے نہ جاتا تو وہ یقیناً مائنڈ کرتے۔ کیونکہ ان سے ملے بھی دس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ظاہر ہے عینی سے ملنے اور ان کے ہاں ٹھہرنے کے باوجود اس کے بھائی بہن سے نہ ملنا مناسب نہ تھا۔ مجھے یہی بہتر محسوس ہوا کہ عینی کے ہاں نہ ٹھہروں۔
کوالالمپور میں ایک اور گھر جہاں میری مرضی چل سکتی تھی، وہ تھا یوسف شاہ کا گھر۔ وہ سمجھتے تھے کہ میں لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں اور تنہا رہنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ ضرورت ہو تو گھر میں کھانا کھالیا ورنہ چلتے پھرتے کہیں سے بھی کھا کر آگیا۔ ملاکا میں رہائش کے دوران جب بھی کوالالمپور آتا تو انہی کے گھر پر ٹھہرتا تھا۔ وہ ملاکا آتے تو ہمارے ہاں رہتے تھے۔ یوسف شاہ ایرو ناٹیکل انجینئر ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برس سے ملائیشیا کی فضائی کمپنی MAS میں ملازمت کررہے ہیں۔ ان کا چھوٹا سا گھر شہر کے ایسے مقام پر تھا، جہاں سے بس اسٹاپ بہت قریب تھا۔ ان کے پانچ بچے تھے۔ ان میں سے دو کی تو انہی دنوں میں شادی ہو گئی تھی، جب ہم ملاکا میں رہتے تھے۔ ان کے باقی تین بیٹے امریکا اور دبئی میں ملازمت کرتے ہیں۔ یہ گھر میرے لیے آئیڈیل تھا۔ وہاں جب بھی میرا موڈ ہوتا میں خود چائے بنا کر پی سکتا تھا۔ میں نے یوسف شاہ کو فون کیا۔ وہ کوالالمپور میں میری آمد کا سن کر بہت خوش ہوئے۔
’’ایئرپورٹ سے سیدھے میرے پاس آنا۔‘‘ یوسف شاہ نے کہا۔ ’’میں نے سمپانگ کے علاقے میں نیا گھر لے لیا ہے۔‘‘
فی الحال تو میں نے ہامی بھرلی، لیکن دل میں سوچا کہ یہ تو اچھی بات ہے، لیکن یہ نیا گھر میرے لیے مناسب نہیں ہو گا، کیونکہ سمپانگ علاقے سے مجھے کہیں بھی جانے کے لیے بہت وقت لگتا۔
ملاکا کے قصبے کوالا سنگائی میں ہماری اکیڈمی واقع تھی اور ہم وہیں رہتے تھے۔ اس دوران میں ایک بزرگ محمد ابراہیم سے دوستی ہو گئی تھی۔ ان کے گیارہ بچے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے حبیب اللہ، عبدالرحمان اور بیٹی حیات النسا تقریباً میرے ہم عمر تھے۔ بعد میں ابراہیم صاحب کا انتقال ہو گیا، لیکن ان کے بچوں سے آج تک میری علیک سلیک ہوتی رہتی ہے۔ اب تو وہ بہن بھائی بھی میری طرح دادا اور دادیاں بن چکی ہیں۔ حبیب الرحمان کا مختلف ملکوں میں بزنس ہے۔ وہ اس سلسلے میں جب بھی کراچی سے گزرتے ہیں تو مجھ سے ملنے ضرور آتے ہیں۔ کوالالمپور میں ان کی کنسٹرکشن کی ایک بہت بڑی کمپنی ہے، جس میں کئی یورپین انجیئر اور سپروائزر کام کرتے ہیں۔
میں نے کراچی سے انہیں فون کیا اور اپنی آمد کا بتائے بغیر ان سے پوچھا۔ ’’حبیب! آپ کی کمپنی کا گیسٹ ہائوس ہے؟‘‘
میں نے یہ اس لیے پوچھا تھا کہ ملائیشیا میں کئی بڑی کمپنیوں کے اپنے گیسٹ ہائوس ہیں۔ جب وہ ولایت کے لوگوں کو ملازمت میں رکھتے ہیں تو انہیں ابتدائی چند ہفتے گیسٹ ہائوس میں ٹھہراتے ہیں، تاکہ ان کے عہدے کے مطابق کوئی مناسب گھر مل جائے تو پھر وہاں منتقل کئے جا سکیں۔ اس کے علاوہ ان کی کمپنی کی پراڈکٹس خریدنے کے لیے غیر ملکی لوگ آتے ہیں۔ انہیں بھی گیسٹ ہائوس میں ٹھہرایا جاتا ہے۔
’’نہیں، ہماری کمپنی کا کوئی گیسٹ ہائوس نہیں ہے۔‘‘ حبیب اللہ نے جواب دیا۔
’’پھر آپ غیر ملکی ایمپلائرز کو ابتدائی ایام کہاں ٹھہراتے ہیں؟‘‘
’’فی الحال ہوٹل میں رہتے ہیں جب تک ان کے لیے کوئی مناسب گھر نہ مل جائے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا اور پھر پوچھا۔ ’’لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’یار میں کچھ دنوں کے لیے کوالالمپور اور ملاکا آرہا ہوں۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’کوالالمپور میں ہمارا گھر ہے ناں۔ اگر آپ ملاکا جانا چاہیں تو بابا کا گھر خالی پڑا ہوا ہے۔ آپ مجھ سے چابی لے جایئے گا یا کمال الرحمان کو فون کر دیجئے گا۔ وہ سریمبان (ملاکا کا قریبی شہر) میں رہتا ہے، وہ آکر گھر کھول دے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ملاکا میں تو آپ کے گھر ٹھہر جائوں گا، باقی کوالالمپور میں پھر کبھی۔ کیونکہ اس مرتبہ میں اکیلا آرہا ہوں۔ دن بھر اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کے ساتھ رہتے ہوئے ایزی محسوس نہیں کروں گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تو پھر ایسا کریں کہ آپ اماں کے گھر پر آکر رہیں۔ اب وہ کوالالمپور میں رہتی ہیں۔ ہم بھائیوں نے مل کر اپنے گھر کے سامنے روڈ کی دوسری طرف انہیں گھر بنوا دیا ہے۔ آپ کے لیے الگ کمرہ ہو گا۔ کھانا وغیرہ ہمارے ہاں کھایئے گا یا ملازمہ سے کہہ دیجئے گا۔‘‘ حبیب الرحمان نے کہا۔
مجھے یہ بات پسند آئی۔ کیونکہ حبیب الرحمان کا گھر شہر کے وسط میں ہے، جہاں سے بس اور ٹیکسی آسانی سے مل سکتی ہے۔ ان کے بڑے بیٹے جب فوج کے لیے منتخب ہوئے تھے تو تب انہوں نے یہ گھر بنوایا تھا۔ ہم اس گھر میں بھی کئی مرتبہ ٹھہرے تھے۔ اب تو ان کے بچوں کے بچے بھی جوان ہو چکے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ 1980ء کی دہائی میں ہم محمد ابراہیم صاحب کے گھر جاتے تھے تو وہاں ایک دیہی ماحول تھا۔ عید یا کسی تقریب میں تمام بھائی اور بہنیں وہاں آجاتی تھیں۔ ہم ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ ایک، دو بھائی شادی شدہ تھے اور ان کی بیویاں بھی اسی دیہی مکان میں رہتی تھیں۔ وہ بھی اس ماحول سے مانوس تھیں۔ اب ظاہر ہے ان کے بچے بھی جوان ہو چکے ہیں۔ کسی نے کہیں سے شادی کی اور کسی نے کہیں سے۔ اب ان نئے چہروں کے ساتھ رہنے میں مجھے ہچکچاہٹ محسوس ہورہی تھی۔ بہرحال میں نے حبیب الرحمان سے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں آپ کی والدہ کے گھر ٹھہروں گا اور اگر یہ ممکن نہ ہو سکا تو پھر بھی میں ان سے ملنے کے لیے ضرور آئوں گا، تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی۔‘‘
حبیب الرحمان کے والد ملائیشیا کو خودمختاری ملنے سے قبل جنوبی ہندوستان سے ہجرت کر کے ملاکا آگئے تھے۔ ان کی والدہ ’’پیان پوح‘‘ ملاکا کی چینی مسلمان خاتون ہیں۔ اب ان کی عمر 88 برس ہے۔ حبیب الرحمان اکثر فون یا ای میل کے ذریعے بتاتے رہتے ہیں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ سہارے سے تھوڑی بہت حرکت کر لیتی ہیں۔ سو میں اس مرتبہ ان سے ضرور ملنا چاہتا تھا۔
آخر جب میرے ملائیشیا جانے میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تو میں نے ڈاکٹر شفیع نظامانی یا غلام علی سولنگی کے ہاں ٹھہرنے کا سوچا۔ ڈاکٹر شفیع کے علاوہ ان کے سالے شوکت نظامانی بھی مجھے اکثر فون کرتے رہتے تھے کہ میں ان کی فیملی ممبر کی طرح ہوں۔ شوکت ہمارے پٹارین ساتھی ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں ڈاکٹر شفیع کے ہاں ’’شاہ عالم‘‘ میں جاکر ٹھہروں۔ شاہ عالم نامی شہر کوالالمپور کے قریب ہے۔ شوکت نظامانی میرے بھانجے ڈاکٹر مشتاق میمن کے آٹھویں کلاس سے کیڈٹ کالج پٹارو میں کلاس میٹ رہے ہیں اور ڈاکٹر شفیع نظامانی میرے مرحوم بہنوئی ڈاکٹر کیپٹن اقبال قاضی کے ساتھی اور کولیگ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شفیع ہمارے لیے قریبی عزیز اور دوست کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اس قدر پرخلوص شخص ہیں کہ میرے منع کرنے کے باوجود کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی تکلف سے کام لیں گے اور مجھے سیر و تفریح کرانا اپنا اولین فرض تصور کریں گے۔ اس کام کے لیے وہ آفس سے بھی چھٹی کر لیتے۔ بہرحال آخر میں بڑی مشکل سے میں نے ان کو اس بات پر راضی کیا کہ دوسری مرتبہ فیملی کے ساتھ آئوں گا تو انہی کے پاس ٹھہروں گا۔ اس مرتبہ ان سے ملنے یونیورسٹی ضرور آئوں گا۔
اس کے بعد میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ غلام علی سولنگی کے پاس جانا بہتر رہے گا، کیونکہ وہ نوکری سے آزاد ہیں۔ وہ بزنس کے لیے سال کا ایک ایک مہینہ ویسٹ ملائیشیا کی گیارہ ریاستوں میں سے ایک ایک میں رہتے ہیں۔ آخری یعنی بارہواں مہینہ کوالالمپور میں گزارتے ہیں۔ اتفاق سے وہ انہی دنوں میں کوالالمپور میں تھے، جب میں وہاں جا رہا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں اور میری ہر بات مانتے ہیں۔ میں انہیں کھانے کے لیے منع کروں گا تو وہ تکلف نہیں کریں گے۔ آج سے پانچ سال قبل میں جمال ابڑو صاحب کے فرزند اطہر ابڑو کے گھر کوالالمپور میں ٹھہرا تھا تو وہاں غلام علی نے دیکھا تھا کہ میں کیسے مست ملنگوں کے سے انداز میں رہتا تھا۔ چائے خود بناتا، ڈبل روٹی پر مکھن لگا کر ناشتہ کرتا اور نکل کھڑا ہوتا۔ اطہر کے پاس دو گاڑیاں تھیں۔ کبھی میں گاڑی میں اور کبھی پیدل ہی چل پڑتا تھا۔ اطہر نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ مجھے مہمان سمجھ کر کوئی تکلف نہیں کرتے تھے۔ وہ بھی خوش تھے اور میں بھی۔
٭٭٭٭٭