سرفروش

0

عباس ثاقب
ریلوے اسٹیشن کے باہر سجی ہوئی تانگا نما گھوڑا گاڑیوںکے علاوہ بہت سے ہتھ رکشے بھی مسافروں کے منتظر تھے۔ مجھے سوچ کر حیرت ہوئی کہ ان اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر، اتنی سخت سردیوں کے موسم میں یہ خستہ حال مزدورکئی من کا وزن کھینچ کر کیسے بھاگتے ہوں گے۔ میری ناقص رائے میں یہ انسانیت کی توہین تھی۔ چنانچہ میں ہتھ رکشے والوں کو نظر انداز کر کے ایک گھوڑا گاڑی میں جا بیٹھا اور منہ مانگے دام ادا کرنے کی ہامی بھر کے شارلٹ جھیل کی طرف روانہ ہوا۔ مجھے پتا تھا کہ افتخار صاحب کم از کم پندرہ بیس منٹ کے وقفے سے میرے پیچھے آئیں گے۔ لہٰذا میں نے ان کی نقل و حرکت پر نظر ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ ابتدائی گفتگو میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ گاڑی بان کا ہاتھ ہندی کے معاملے میں خاصا تنگ ہے۔ لہٰذا میں نے اس سے چونچ لڑانے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی اس نے مجھ سے بات کرنے کی زحمت کی۔
اس نے مجھے منزل کے نزدیک ایک مقام پر اتارا اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یہاں سے مجھے پیدل باقی فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ میں نے اسے بھاڑا ادا کیا اور سردی کی لہر کا مزا لیتے ہوئے سست قدموں سے جھیل کی طرف بڑھنے لگا۔
چاروں طرف طاری سناٹے اور فضا میں بسی ٹھنڈک کے باوجود شارلٹ جھیل انتہائی دل کش مقام ثابت ہوئی۔ اس وقت بمشکل آٹھ دس سیاح موجود تھے۔ تاہم مجھے یقین ہے سرسبز پہاڑیوں میں گھری یہ جھیل یقیناً موسم گرما میں ان گنت سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہوگی۔ خصوصاً کناروں پر جھیل میں جھکے درخت تو بہت ہی حسین لگ رہے تھے۔ پل نما بند سے جائزہ لینے پر مجھے ان درختوں پر اکا دکا بندر بھی دکھائی دیئے، جو اس سردی میں نظر آنا کافی حیرت کی بات تھی۔
اسی وقت وہاں ایک درجن کے لگ بھگ سیاحوں کا ایک گروپ پہنچا اور اس کے ساتھ ہی وہاں کا سکون درہم برہم ہوگیا۔ وہ شاید کسی کالج یا یونیورسٹی کے طلبہ تھے۔ کیونکہ ان میں سے زیادہ تر نوجوان تھے۔ جب ان سب نے شور مچاتے ہوئے بلند پلیٹ فارم کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں تو میں نیچے اتر آیا، جہاں سامنے ہی چائے اور کھانے پینے کی چیزوں کے دو کھوکھے موجود تھے۔ میں چائے کا ایک کپ لے کر ایک طرف جا بیٹھا۔
کچھ ہی دیر میں مجھے افتخار صاحب اس طرف آتے دکھائی دیئے۔ وہ ایک گھوڑے پر سوار تھے، جس کا مالک گھوڑے کے آگے آگے بھاگ رہا تھا۔ جھیل کے پاس پہنچ کر انہوں نے گھوڑے والے کو ادائیگی کی اور اتر کر چائے کے کھوکھوں کی طرف آگئے۔ میں نے ان کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم انہوں نے وہاں پہنچتے ہی مجھے دیکھ لیا تھا۔ کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد وہ جھیل کے کنارے کنارے گھنے درختوں کے درمیان بنے راستے پر آگے بڑھنے لگے۔ ان کی روانگی کے صرف پانچ منٹ بعد میں بھی اسی راستے پر چل دیا۔ دن کا وقت ہونے کے باوجود اس رستے پر شام کا سا عالم تھا۔ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، جھیل کا شور شرابا معدوم ہوتا گیا، حتیٰ کہ بالکل سناٹا چھا گیا۔
اچانک ایک دوستانہ آواز نے مجھے پکارا ’’او بھیا، اس طرف!‘‘۔
وہ افتخار صاحب تھے، جو جھیل کی طرف جانے والی ایک پگڈنڈی پر میرے منتظر تھے۔ انہوں نے مجھے گرم جوشی سے سینے سے لگاکر میرا استقبال کیا۔
’’کیسا رہا رات کا ایڈونچر؟‘‘۔ انہوں نے جھیل کے کنارے سے محض چند فٹ کے فاصلے پر پڑے شہتیروں میں سے ایک پر مجھے بٹھاکر سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ’’اور یہ اس طرح ہنگامی ملاقات کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ یقیناً کوئی خاص بات ہوگی؟‘‘۔
میں نے اپنا جوش دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’خاص نہیں، خاص الخاص بات جناب۔ آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ نے سچن بھنڈاری کو بھیجی گئی مطلوبہ فائلوں اور دستاویزات کی فہرست میں آئی این ایس وکرانت کے کماندار، کیپٹن ایس پرکاش کی کسی تحقیقاتی رپورٹ کے فوٹوگرافس کا بھی مطالبہ کیا تھا؟‘‘۔
میری بات سن کر افتخار صاحب واضح طور پر چونکے۔ ’’وکرانت کا کمانڈر، کیپٹن ایس پرکاش کو بنایا گیا ہے؟ کیا واقعی؟‘‘۔
میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’اگر آپ اسے جانتے ہیں تو سن لیجیے کہ اسے نہ صرف وکرانت کا کمان دار بنایا گیا ہے، بلکہ اس نے آئی این ایس وکرانت کی ساخت میں موجود نقائص اور دیگر تکنیکی مسائل کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ بھی حکام بالا کو پیش کی ہے۔ جس میں اس نے وکرانت کی کارکردگی پر شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک سفید ہاتھی قرار دیا ہے‘‘۔
افتخار صاحب نے شاید اپنے تحمل کی آخری حد استعمال کرتے ہوئے میری بات مکمل ہونے کا انتظار کیا تھا۔ میرے منہ سے آخری لفظ نکلتے ہی وہ گویا پھٹ پڑے۔ ’’اوہ مائی گاڈ! تم نے اس رپورٹ کی پوری فوٹو گرافی کی ہے ناں؟ تم نے وہ رپورٹ توجہ سے پڑھی ہے ناں؟‘‘۔
میں نے ان کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’جی ہاں جناب، ایک ایک لفظ بہت غور سے اور سمجھ کر پڑھا ہے اور ہر صفحے کی پوری احتیاط سے اور کئی بار فوٹوگرافی کی ہے‘‘۔
انہوں نے اٹھ کر مجھے ایک بار پھر سینے سے لپٹا لیا۔ ’’یہ تو کمال ہوگیا! بھائی شاید تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم نے کتنا بڑا کام کر دیا ہے۔ شاید، شاید تمہاری یہی کاوش ہمیں وکرانت نامی اس ناگ کا سر کچلنے کے قابل بنا دے…جزاک اللہ، ماشاء اللہ!‘‘۔
میں نے ان کا جوش کچھ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا اور پھر پُرسکون لہجے میں کہا ’’لیکن جناب یہ وہ اطلاع نہیں ہے، جس کی وجہ سے میں نے آپ کو اتنی اتفرا تفری میں ملاقات کی زحمت دی ہے‘‘۔
انہوں نے حیران نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے پُرسکون لہجے میں بتایا۔ ’’کیپٹن ایس پرکاش نے اپنے حکام بالا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جہاز سے متعلق تمام مسائل اور نقائص کا جلد از جلد تدارک یقینی بنایا جائے، تاکہ وہ سال کے آخری مہینے میں کھلے سمندر میں سفر کر کے گوا کو پرتگیزیوں کے قبضے سے چھڑا کر ہندوستان میں ضم کرنے کے لیے کیے جانے والے ’’آپریشن وجے‘‘ میں بلاخوف و خطر حصہ لے سکے‘‘۔ (جاری ہے)

٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More