امت رپورٹ
بدنام بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کرکٹ سٹے سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اخراجات پورا کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اگلے ماہ کی 5 تاریخ کو متحدہ عرب امارات میں شروع ہونے والی افغانستان پریمیئر لیگ سے بھی ’’را‘‘ کو بالواسطہ اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔
بھارتی سٹہ بازار سے جڑے ذرائع کے بقول سٹے کی رقم کو ’’را‘‘ کے اخراجات کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ نیا نہیں۔ تاہم 2008ء میں آئی پی ایل کے آغاز کے بعد سے اس میں تیزی آئی ہے۔ یوں اپنی خفیہ ایجنسی کے لئے اربوں کا خفیہ فنڈز مختص کرنے والی دہلی سرکار کے مالی بوجھ میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ آئی پی ایل کا آئیڈیا بھی ’’را‘‘ کی جانب سے دیا گیا تھا۔ اس میں بھارت کے ٹاپ بکیز کی مشاورت شامل تھی۔ آئی پی ایل کا ایونٹ ہر برس اپریل اور مئی کے دوران ہوتا ہے۔ آئی پی ایل اس وقت دنیا بھر میں کرکٹ پر سٹہ کھیلنے کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔ دبئی میں مختلف بھارتی بکیز سے رابطے میں رہنے والے ذرائع کے مطابق دنیا میں کہیں بھی کرکٹ لیگ ہو یا کرکٹ سیریز، ’’را‘‘ کے لئے کام کرنے والے بھارتی بکیز کو پہلے سے وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس وقت ’’را‘‘ کی سرپرستی میں کام کرنے والے بھارت کے سرفہرست بکیز میں سنیل المنچندانی عرف دبئی، جیتو دبئی، جے کے احمد آبادی، لکشمی چند تھانے عرف ایل ٹی، بالا جی مدراسی، لال چند، گووند، منوج میٹرو اور انگلینڈ میں گرفتار سنجیت چاولہ کے گروپ کے ارکان شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے نصف سے زائد بکیز اس وقت ایشیا کرکٹ کپ کے موقع پر دبئی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ جبکہ ویسٹرن یونین اور حوالہ کے ذریعے رقم کا لین دین کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ ’’را‘‘ کی سرپرستی میں اپنا نیٹ ورک چلانے والے بھارتی بکیز کو سب سے زیادہ آمدنی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) سے ہوتی ہے۔ تاہم دیگر ممالک میں ہونے والی مختلف کرکٹ لیگوں سے بھی ان بھارتی بکیوں کی جیب میں بھاری رقم آتی ہے۔ رواں برس اگست میں ویسٹ انڈیز میں ہونے والے کیربین پریمیئر لیگ کے چھٹے ایڈیشن میں ’’را‘‘ سے وابستہ بھارتی بکیوں نے 27 ارب روپے سے زائد پیسہ کمایا۔ اسی طرح گزشتہ برس دسمبر میں ڈھاکہ میں ہونے والی بنگلہ دیش پریمیئر لیگ سے ان بکیوں کو 34 ارب روپے سے زائد کی آمدنی ہوئی۔ ذرائع کے مطابق بھارتی بکیز اپنی آمدنی کا 25 سے 30 فیصد ’’را‘‘ کے ذمہ داروں کو دیتے ہیں۔ اس کے عوض نہ صرف ان بکیوں پر بھارت کا کوئی ادارہ ہاتھ نہیں ڈالتا، بلکہ انہیں سٹہ کرانے کے لئے سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ بھارتی پولیس عموماً ایسے چھوٹے موٹے بکیز پر ہاتھ ڈالتی ہے، جو ’’را‘‘ کے نیٹ ورک سے باہر ہیں۔ تاکہ آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کو بھی مطمئن رکھا جا سکے۔ مختلف بھارتی بکیوں سے معلومات حاصل کرنے والے ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر کرکٹ سیریز اور لیگوں میں اضافہ ہوتا رہا اور بھارتی بکیز کی کمائی بھی بڑھتی رہی تو ایک وقت ایسا آ سکتا ہے کہ دہلی سرکار کو اپنے خزانے سے ’’را‘‘ کو خفیہ فنڈ دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس وقت بھارتی بکیوں کی جانب سے ’’را‘‘ کو کھربوں روپے سالانہ فراہم کئے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ذرائع نے دوہا کے انٹرنیشنل سینٹر فار اسپورٹس سیکورٹی کے بیان کردہ اعداد و شمار کا حوالہ بھی دیا۔ کرکٹ میں کرپشن پر نظر رکھنے والے اس ادارے کے مطابق صرف بھارت میں سٹے کی عالمی مارکیٹ کا حجم 150 ارب ڈالر سالانہ ہے، جس میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے ہر ون ڈے انٹرنیشنل پر لگائے جانے والے 200 ملین ڈالر شامل ہیں۔
بھارت میں کرکٹ پر جوئے کو قانونی حیثیت دینے کی بحث پچھلے کئی برسوں سے چل رہی ہے۔ فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی بھارت میں جوئے کو قانونی حیثیت دینے کے حق میں ہے۔ اور بھارتی حکومت کو تجویز دے چکی ہے کہ جوئے کو قانونی حیثیت دینے کے بعد وہ 1200 سے 1900 کروڑ روپے سالانہ ریونیو کما سکتی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ’’را‘‘ رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ آمدنی اس سے کہیں کم ہے، جو وہ بکیز کے ذریعے قائم کردہ اپنے نیٹ ورک سے کما رہی ہے۔
دبئی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ایشین کرکٹ کپ کے لئے متحدہ عرب امارات کے مختلف شہروں میں ڈیرے ڈالنے والے بدنام بھارتی بکیز دسمبر کے پہلے ہفتے تک یہاں موجود رہیں گے۔ کیونکہ ایشین کپ کے بعد 5 اکتوبر کو افغانستان پریمیئر لیگ شروع ہو رہی ہے۔ اور پھر 23 نومبر کو ٹی 10 لیگ شروع ہو جائے گی۔ ذرائع کے مطابق افغانستان پریمیئر لیگ دراصل انڈین پریمیئر لیگ کا دوسرا نام ہے۔ لیگ کے آرگنائزر، پارٹنر اور فرنچائز مالکان کی اکثریت بھارتیوں پر مشتمل ہے۔ ٹی 20 فارمیٹ کے تحت کھیلی جانے والی افغانستان پریمیئر لیگ کا پہلا ایڈیشن افغان کرکٹ بورڈ ایک بھارتی کمپنی Sports Snixe کے اشتراک سے کرا رہا ہے۔ جبکہ ایک اور بھارتی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی TCM، افغانستان پریمیئر لیگ کی ایگزیکٹو پارٹنر ہو گی۔ TCM بھارت کی ایک بڑی اسپورٹس مارکیٹنگ اینڈ مینجمنٹ کمپنی ہے، جسے 1993ء میں اسپورٹس صحافی لوکیش شرما نے قائم کیا تھا۔ یہ کمپنی آئی پی ایل کے لئے بھی کام کرتی ہے۔ افغانستان پریمیئر لیگ میں ٹیموں کی تعداد پانچ ہے۔ مجموعی طور پر 23 میچ کھیلے جائیں گے۔ جس میں پاکستانیوں سمیت چالیس غیر ملکی کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سینٹرل کنٹریکٹ رکھنے والے کرکٹرز پر ٹورنامنٹ کھیلنے کی پابندی لگا دی ہے اور صرف ریٹائرڈ کرکٹرز کو اجازت دی گئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود لیگ کی فرنچائز میں سینٹرل کنٹریکٹ رکھنے والے بعض کرکٹرز بھی شامل ہیں۔ سابق اسٹار پاکستانی آل رائونڈر شاہد آفریدی کے علاوہ سہیل تنویر، وہاب ریاض اور محمد عرفان لیگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ افغانستان پریمیئر لیگ کی پانچ ٹیموں میں سے چار کے فرنچائز مالکان بھی بھارتی ہیں۔ ننگر ہار ٹیم کا فرنچائز مالک پرا ناوو کمار ہے۔ جس کی ممبئی میں واقع کمپنی پلس کیپٹل لمیٹڈ فنانشنل ایڈوائزری کا کام کرتی ہے اور لوگوں کو یہ گُر سکھاتی ہے کہ دولت میں کیسے اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح قندھار کی ٹیم کی فرنچائز مالک ایس بی اسپورٹس ہے، جس کا ہیڈ کوارٹر بھارت کے شہر جے پور (راجستھان) میں ہے۔ اور یہ فٹنس سے متعلق ساز و سامان کی ہول سیلر کمپنی ہے۔ پکتیا کی ٹیم کے فرنچائز حقوق وی روک موبائل کمپنی کے مالک جیتین اہلو والیہ نے لئے ہیں۔ اہلو والیہ کے پاس آئی پی ایل اور ایشین کرکٹ کپ کے موبائل رائٹس بھی تھے۔ بلخ کی ٹیم کی مالک ممبئی کی لیجنڈری مین انٹرٹینمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔ دبئی میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ سٹہ بازار میں یہ باتیں عام ہیں کہ افغان پریمیئر لیگ میں بھارتی بکیز کھل کر سٹہ کھیلیں گے۔ اور اس سلسلے میں انہیں ایشیا کپ سے بھی زیادہ آمدنی ہو سکتی ہے۔ جبکہ بھارتی بکیز اور ان کے ایجنٹوں کی جانب سے لیگ کے مختلف کھلاڑیوں سے رابطے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی قسم کی ایک کوشش افغان کرکٹ ٹیم کے وکٹ
٭٭٭٭٭
Next Post