حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

0

سید ارتضی علی کرمانی
ریکروٹنگ آفیسر کے بعد راولپنڈی کے کمشنر نے آپؒ کو اسی قسم کا ایک پیغام بھجوایا، جس میں آپؒ سے بعض مسلمان سیاست دانوں کو امتناعی ہدایات دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ آپؒ نے جواب میں فرمایا کہ
’’از مہر علی شاہ بجواب پیغام کمشنر صاحب
آپ کا پیغام دربارئہ امتناعی ہدایت یعنی مخالفین دولت برطانیہ پہنچا۔ اگر مجھے غیر اسلام اور غیر اہل اسلام کا طرف دار سمجھ کر مخاطب کیا گیا ہے تو یہ خیال بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ اگر اس وجہ سے مخاطب کیا گیا ہے کہ میں گروہ مخالفین دولت برطانیہ سے متفق نہیں ہوں تو میرا تخاطب بوجہ اصول اسلامیہ تجاویز جزیہ میں ہے، نہ مطلقاً اور اصل مدعی اور غایت و نتیجہ ہیں۔
مجھ سے مطلوبہ ہدایت اسی صورت میں متصور ہو سکتی ہے کہ مقامات مقدسہ مکہ و مدینہ و بغداد اور بیت المقدس پر قبضہ چھوڑا جائے گا۔ ورنہ معاذاللہ و اکرہ اسلام سے خارج ہو کر آپ کے پیغام کی تعمیل بالکل ناممکن تھی۔
والسلام علی من اتبع الھدی۔ والحمدللہاولاً و آخراً۔ العبد المشتکی الی اللہ المدعو بہمہر علی شاہ بقلم خود۔ ازگولڑہ
جناب حضرت پیر صاحبؒ کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ ہندوستان کے جذباتی مسلمان اپنا سب کچھ خلافت عثمانیہ کے لیے دائو پر لگا رہے ہیں، مگر عام لوگوں سے ہٹ کر پیر صاحبؒ کو نظر آرہا تھا کہ جس سرزمین کے لیے ہمارے بھائی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے، اسی سرزمین پر ایک سیکولر حکومت برسراقتدار آنے والی ہے اور ہوا بھی۔ یہی سب کچھ جب انور کمال پاشا نے حکومت سنبھالی تو کہہ دیا کہ ہماری حکومت کا کوئی مذہب نہیں۔ اسی سرزمین پر اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ پھر وہی سرزمین جس کے لیے ہندوستان کے مسلمان مرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یورپ میں شامل ہونے کے لیے عملی طور پر یورپ سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی۔
اب دراصل صورت حال یہ ہو گئی کہ تحریک خلافت کی جدوجہد میں نمایاں طور پر مسٹر گاندھی کا نام آنے لگا۔ مسٹر گاندھی چونکہ ہندوئوں کا سب سے بڑا رہنما تھا اور اس نے یہ اندازہ بھی کر لیا تھا کہ مسلمانوں کے بھڑکے ہوئے جذبات کا سہارا لے کر تاج برطانیہ کو ہلایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اس نے اور دیگر ہندو رہنمائوں نے جادو بیانی سے کام لیتے ہوئے بہت سے مسلمانوں کو ان کی راہ سے بھٹکا دیا۔
چونکہ مسلمانوں کی کوئی بھی منظم جماعت نہیں تھی، اس لیے جب مسلمانان ہند نے تحریک خلافت شروع کی تو مسلمانوں نے اپنا تن من دھن نچھاور کرنا ہی اپنا نصب العین خیال کر لیا تھا۔ اسی لیے مسلمانوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے مسٹر گاندھی انگریزوں کو یہ تاثر دیتا رہا کہ اصل میں پورے ہندوستان میں کوئی مذہبی منافرت نہیں اور مسٹر گاندھی ہندوئوں اور مسلمانوں کے متفقہ رہنما ہیں۔ مگر جلد ہی مسلمانوں پر واضح ہو گیا کہ ہندو دراصل مسلمانوں کی مذہبی دیوانگی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ کیونکہ بعد میں ثابت یہی ہوا کہ مسٹر گاندھی نے مسلمانوں کو دوسری قوم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور پورے ہندوستان میں رہنے والوں کو ایک ہی قوم گردانتا رہا۔
اس زمانے میں عجیب و غریب صورت حال پیدا ہو چکی تھی۔ بڑے بڑے نامور مسلم زعما گاندھی کے فریب میں آکر کانگریس کے لیے کام کررہے تھے اور ہندوستان کو ہی اصل میں وطن سمجھ اور قوم سمجھ بیٹھے تھے۔ انہی نامور علمائے کرام میں ایک بہت بڑے عالم دین جناب مولانا حسین احمد مدنیؒ بھی تھے۔ جنہوں نے یہ فرمایا تھا کہ
’’آج کل قومیں اوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں۔‘‘
یہ بات حضرت علامہ محمد اقبالؒ کو تیر کی طرح لگی کہ ایک انتہائی معتبر عالم دین کس طرح مسلم قومیت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اقبال نے بے قرار ہو کر ایک قطع اس طرح ارشاد فرمایا کہ پوری مسلم قوم کا جواب بن گیا اور ہندوئوں اور انگریزوں پر یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ مسلمان خواہ کسی ملک اور خطۂ میں رہیں، یہ بحیثیت قوم ہی رہتے ہیں۔ ان کو کسی بھی معاشرے میں مدغم نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا کہ
عجم ہنوز نداند رموز دیں، ورنہزدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی استسرود برسر منبر کہ ملت از وطن استچہ بے خبرز مقام محمدؐ عربی استمصطفیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوستاگر یہ اونرسیدی، تمام بولبی استاس عشق محمدیؐ کا اظہار ہمیں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے ملتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی عشق رسالت مآبؐ میں ہی گزری اور کوئی بھی خلاف شرع کام آپ نے کسی بھی حال میں سرانجام نہ دیا اور نہ ہی اپنے معتقدین کو حکم فرمایا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More