حضرت ذوالنون مصریؒ کا شمار بہت بڑے اولیائے کرام میں ہوتا ہے۔ ان کے زمانے میں ایک نوجوان تھا، جو ہمیشہ حضرات صوفیائے کرام کا انکار کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ حضرت ذوالنون مصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، کچھ گفتگو ہوئی۔ آپؒ نے اس کو ایک قیمتی انگشتری دی اور فرمایا کہ اسے نانبائی کے پاس لے جا اور قمیت معلوم کرو۔ وہ نوجوان اس انگوٹھی کو لے کر نانبائی کے پاس گیا اور اس سے اس کی قیمت دریافت کی۔ اس نے اس کی قیمت ایک درہم سے زیادہ نہیں بتائی۔ وہ واپس لے کر پھر آپ کی خدمت میں آیا اور قیمت بتائی۔
پھر آپؒ نے اس فرمایا کہا اب سے صراف (زرگر) کے پاس لے جا اور اس کی قیمت دریافت کر۔ وہ جوان انگشتری صراف کے پاس لے گیا۔ صراف نے ایک ہزار دینار اس کی قیمت بتائی۔ وہ پھر حضرت کی خدمت میں واپس آیا اور سارا حال بتایا۔ آپ نے فرمایا: تیرا علم حضرات صوفیائے کرام کے متعلق صرف نانبائی کے علم کی طرح ہے، جو اسے انگشتری کے متعلق تھا۔ یہ سن کر ان نوجوان نے سچے دل سے توبہ کر لی اور آئندہ بدگمانی و تکبر اور انکار سے محفوظ رہا۔ (مخزن اخلاق 454)
غور کیجئے کہ حضرت ذوالنون مصریؒ نے اس نوجوان کو بہترین مثال و عمدہ انداز میںسمجھایا کہ وہ جوان ہمیشہ کیلئے تائب ہوگیا۔ دراصل انسان کو راہ راست پر لانے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرض کو ختم کیا جائے نہ کہ مریض کو، اولیاء مرض شناس ہوتے ہیں۔
صاحب تفسیر معارف القرآن جلد 1 پ 1 ص 169 پر آیت مبارکہ (ترجمہ) ’’بے شک خدا تعالیٰ نہیں شرماتا اس بات سے کہ بیان کرے کوئی مثال مچھر کی یا اس چیز کی جو اس سے بھی حقارت میں زیادہ ہو‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ کسی مفید مضمون کی توضیح و وضاحت میں کسی حقیر و ذلیل یا شرمناک چیز کا ذکر کرنا نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی عجیب ہے اور نہ قائل و کہنے والے کی عظمت وشان کے منافی ہے۔
قرآن وسنت اور علماء سلف کے اقوال میں بکثرت ایسی مثالیں بھی مذکورہ ہیں۔ جو عرفاً شرمناک سمجھی جاتی ہیں، مگر قرآن وسنت نے اس عرفی و مشہور شرم وحیاء کی پروا کئے بغیر اصل مقصد پر نظر رکھ کر ان مثالوں سے اجتناب و پرہیز گوارا نہیں کیا۔ مطلب یہ ہے کہ بطور مثال کسی حقیر و ذلیل یا شرمناک چیز کا ذکر کرنا کوئی عیب نہیں۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
قیصر کی وجہ تسمیہ:
علامہ دمیریؒ (منصف حیاۃ الحیوان) فرماتے ہیں کہ قیصر افریقی لفظ ہے۔ جس کے معنی ’’چیرکر کا نکالنا‘‘ مؤرخین نے قیصر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ قیصر کی ماں کا انتقال درد زہ (یعنی بچہ پیدا ہونے کا درد) میں ہوگیا تو قیصر کو فوراً اس کی ماں کا پیٹ چیر کر نکالا گیا تھا۔ پس اسی وقت سے اس کا لقب قیصر پڑ گیا۔ قیصر کا اصل نام ’’اغلس‘‘ تھا۔ اسی کے عہد سلطنت میں حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی، پھر اس کے بعد روم کے ہر بادشاہ کیلئے قیصر کا لقب استعمال کیا جانے لگا، جیسے ترک کے بادشاہ کا لقب خاقان اور فارس (موجودہ ایران) کے بادشاہ کا لقب کسریٰ، شام کے بادشاہ کا لقب ہرقل، قبط کے بادشاہ کا لقب فرعون تھا۔ یاد رہے کہ موجود مصر کا قدیم نام قبط تھا۔ حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی تھا۔ فرغانہ کے بادشاہ کا لقب جمشید، (مغلیہ خاندان کا بانی شہنشاہ بابر، فرغانہ کا تھا) اور مصر کے بادشاہ کا لقب اسلام میں سلطان تھا۔ جیسے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ وغیرہ (حیاۃ الحیوان جلد1 ص595)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post