پاکستان اور امریکا نے ایک دوسرے کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے ان دنوں نیو یارک میں موجود ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ سے ان کی ملاقات ایک استقبالیہ دعوت میں ہوئی، جو مختصر ہونے کے باوجود انتہائی خوشگوار تھی۔ ملاقات کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پاک و امریکا تعلقات کے حوالے سے بھی غیر رسمی تبادلہ خیال ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے امریکی صدر سے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو ازسرنو شروع کرنے کی درخواست کی، جس کے جواب میں ان کا رویہ نہایت مثبت تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جواباً کہا کہ ہم بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئے اور خوشگوار انداز میں شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی نیویارک میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے بھی ملاقات ہوئی اور اب وہ پومپیو سے دو اکتوبر کو دوسری ملاقات کریں گے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان ستر برسوں کے گھٹتے بڑھتے تعلقات کے تناظر میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دو طرفہ تعلقات کی بہتری کو خواب و خیال سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ قبل ازیں امریکا میں کئی نارمل اور معتدل مزاج صدر برسر اقتدار رہے۔ ان کے زمانے میں بھی پاکستان کی تمامتر کوششوں اور توقعات کے باوجود بیشتر امریکی حکومتوں کا جھکاؤ پاکستان سے زیادہ بھارت، اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن و پاکستان مخالف قوتوں کی جانب رہا، کیونکہ ان کے نظریات اور مفادات مشترک ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا بھر کے سنجیدہ رہنما اور مبصرین متفقہ طور پر ایک ایب نارمل اور مسخرہ انسان سمجھتے ہیں، جس کا ثبوت انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے حالیہ خطاب کے دوران خود ہی ایک بار پھر دے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ ان کی صدارت کے دو سال میں امریکا اتنا مضبوط، محفوظ اور امیر ہوگیا ہے جتنا پہلے کبھی نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی حکومت کی تعریف کے پل باندھنے شروع کئے اور امریکی تاریخ میں اپنی بہترین کارکردگی کے دعوے کئے تو جنرل اسمبلی میں قہقہے لگنا شروع ہوگئے جو کچھ دیر تک جاری رہے۔ اس پر صدر ٹرمپ شرمندہ ہوئے یا نہیں، البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ مجھے ایسے ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ امریکا کے پاکستان کے ساتھ اچھے یا برے تعلقات کا انحصار کسی ایک یا دوسرے صدر کی شخصیت سے نہیں ہے، کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں کی طرح امریکا کی پالیسیاں حکومتوں کے آنے جانے سے نہیں بدل جاتیں۔ ملک کے مختلف محکمے، بالخصوص داخلہ، خارجہ اور دفاع کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام کبھی آئندہ کئی دہائیوں اور کبھی صدیوں کیلئے اہم پالیسیاں بناتے ہیں، جن میں حکومتوں کی تبدیلی سے معمولی رد و بدل تو ہوسکتا ہے، لیکن بنیادی اغراض و مقاصد اور اہداف بالعموم وہی رہتے ہیں۔
برطانوی غلامی سے آزادی کے بعد پاکستان کے بارے میں عام تاثر یہی رہا کہ حکمرانوں نے اسے امریکا کی غلامی میں دے دیا ہے اور امریکا ہی پاکستان میں حکومتوں اور پالیسیوں میں تبدیلی کے فیصلے کرتا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا رہا کہ پاکستان کے صدر، وزیراعظم یا کسی بھی وزیر سے امریکی صدر تو کیا، کوئی معمول سیکریٹری بھی مسکرا کر مل لے یا ہاتھ ملالے تو اسے بڑی خوش قسمتی تصور کیا جاتا ہے۔ سیاسی مبصرین تو یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے کہ امریکا کی بدترین مخالفت کرنے والے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی امریکی حکام سے یہ کہہ کر پاکستان میں اقتدار کی بھیک مانگتے پائے گئے کہ ان کی حکومت پاکستان اور افغانستان سے طالبان کا مکمل صفایا کردے گی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے بھی مبینہ طور پر یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر انہیں ایک بار پھر بر سر اقتدار آنے کا موقع دیا جائے تو وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک امریکا کو رسائی دے دیں گے۔ ایک استقبالیہ دعوت میں امریکی صدر سے اچانک غیر رسمی ملاقات پر شاہ محمود قریشی کا خوش ہونا بھی قابل فہم ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی شخصیت عالمی سیاست میں متنازعہ اور مضحکہ خیز بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کا ’’ازسرنو آغاز‘‘ دونوں ملکوں کی تاریخ میں بار بار دیکھا گیا ہے، لیکن نتیجہ ہمیشہ یہی نکلتا ہے کہ امریکا پاکستان کو اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتا ہے اور امداد کے نام پر حکمرانوں کو امداد اور قرضوں کے چند ٹکڑوں کی بھیک دے کر احسان جتاتا ہے۔ حالانکہ ان رقوم سے پاکستان اور اس کے عوام کو کبھی کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دو سالہ دور حکومت میں امریکا کو ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط، محفوظ اور امیر ملک قرار دیا تو اس پر عالمی برادری کی جانب سے مذاق اڑانا بالکل فطری امر تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خود اپنے ملک میں کوئی عزت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ان کے دور میں امریکا کے اپنے دوستوں سمیت دوسرے کئی ممالک سے تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے، اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے پاک و امریکا تعلقات میں اگر کوئی بہتری پیدا ہو بھی گئی تو اس کے پائیدار ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ وہ آئے دن خود اپنے بیانات بدلتے رہتے ہیں۔ انہیں تو یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے منہ سے جو پھول جھڑیں گے، اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تعلقات کا آغاز بیس اکتوبر 1947ء کو ہوا تھا۔ امریکا ان اولین ممالک میں شامل تھا، جنہوں نے قیام پاکستان کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد امریکا کے ساتھ سیٹو اور سینٹوں کی تنظیموں میں شامل ہوکر پاکستان نے عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں اور سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے موقع پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان گہری ہم آہنگی موجود تھی۔ 1972ء میں امریکی صدر نکسن کے دورئہ چین اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں پاکستان نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ اکثر عالمی امور پر دونوں ممالک کا نقطہ نظر تقریباً یکساں رہا۔ لیکن ان سب حالات کو یکطرفہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ ان میں امریکا کے مفادات ہمیشہ مقدم رہے۔ اس کے برعکس پاکستان پر جب کبھی برا وقت آیا، امریکا نے ہمیشہ پیٹھ دکھائی اور پاکستان دشمنوں کا ساتھ دیا۔ 1965ء ہو یا1971ئ، دونوں جنگوں میں امریکا نے پاکستان کو دھوکا دیا۔ اسی طرح افغانستان پر وحشیانہ امریکی حملوں کے بعد پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا تو امریکا نے پاکستان کے بھرپور تعاون اور دہشت گردی کے خاتمے میں زبردست کردار کے باوجود آج تک یہی رٹ لگا رکھی ہے کہ دہشت گردی کا ذمے دار پاکستان ہے اور اسے افغانستان میں دہشت گردی ختم کرانی چاہئے۔ جبکہ واحد سپر پاور کے طور پر اور اپنے مغربی حلیفوں کے ساتھ سترہ سال سے امریکا وہاں خود براجمان ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے امریکا سے پاکستان کیوں اور کیسے تعلقات بحال کرے اور دوستی برقرار رکھنے کی خواہش ظاہر کرے؟
٭٭٭٭٭