شیخ زاید نے شاہراہوں اور آبادیوں میں مختلف اقسام کے درخت، گھاس اور کھجوروں کے جھنڈ کے جھنڈ لگوائے اور پورے ملک کو ہرا بھرا کر دیا۔ بابا کی ہریالی سے بے پناہ محبت کا آج بھی احترام کیا جاتا ہے۔ ان کے وارث اور ابوظہبی کے موجودہ حکمران شیخ خلیفہ نے شیخ بابا کی سنت کو جاری رکھا ہوا ہے، جس ملک میں اپنے بزرگوں کا حد درجہ احترام کیا جاتا ہو، وہاں کے حکمران، عوام اور اہل کار ملکی قانون سے اغماض برتنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس ملک کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر آپ کو کوئی گری ہوئی چیز نظر آئے تو کوئی اسے اٹھاتا نہیں، حتیٰ کہ اس کا مالک خود تلاش کرتا ہوا آتا ہے اور اٹھا لے جاتا ہے۔ یہ عرصہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ایک ہفتے بعد بھی چیز وہیں مل جائے گی، جہاں وہ گری تھی۔ ایسی باتیں سن کر یوں لگتا ہے جیسے ہم کوئی الف لیلوی داستان سن رہے ہیں۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں۔ یہ ایک اسلامی ملک ہے، جو اپنے اندر کئی خرابیاں اور خوبیاں لیے ہوئے ہے، جو ہمیں الف لیلوی لگتی ہیں۔
کاشف اور فیصل ہمیں یہ پارک دکھانے لائے تھے۔ اتنا بڑا پارک دیکھ کر میں تو دنگ رہ گیا۔ یہاں چاہتے تو ایک اسٹیڈیم بن سکتا تھا۔ مین سٹی کے بیچوں بیچ اتنی بڑی جگہ کراچی پاکستان میں ہوتی تو ایم کیو ایم والے اب تک چائنا کٹنگ کر کے اربوں بنا چکے ہوتے یا ملک ریاض بن چکے ہوتے۔ لیکن یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اگر اس پارک کے کنارے کنارے چلا جائے تو فاصلہ میلوں میں ہو گا۔ یہاں کی حکومت عوام پر بہت مہربان ہے۔ کراسنگ سڑکوں کے نیچے جب ٹکڑیوں میں اتنی بڑی بچ گئی تو اسے انجینئرز کے حوالے کر دیا گیا۔ جنہوں نے اسے تراش خراش کے بعد ایسی جگہ میں تبدیل کر دیا کہ جی چاہتا ہے بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے۔ پینے کے پانی کا معقول انتظام کیا گیا اور ہر سو روشنیاں بکھیری گئیں۔ لکڑی کی میز کرسیاں ایستادہ کی گئیں تاکہ جب تھک جائیں تو آرام کر لیا جائے یا شکم کی خدمت کرنے کو جی چاہے تو انہی پر دسترخوان لگ جائے۔ مردوں اور خواتین کے واش روم تعمیر کئے گئے۔ صفائی ستھرائی کے شاندار انتظامات کئے گئے۔ ایک خاص فاصلے پر سوئپر بیٹھے ہوئے ہی نہیں، بلکہ ہمہ وقت کھڑے رہتے ہیں۔ ادھر درخت سے کوئی پتہ بھی گرے تو اٹھانے کے لیے فوراً سوئپر پہنچ جاتا ہے۔
مزید تھکاوٹ سے بچنے کے لیے جب میں ایک بینچ پر بیٹھا تو ایک عجب راحت کا احساس ہوا، جیسے کسی نے آغوش میں لے لیا ہو۔ وہ لکڑی کا بنا ہوا ایک عام سا بینچ تھا، لیکن تراش خراش دیدنی تھی۔ ایسا ملائم کہ تادیر بیٹھے رہنے پر اکتاہٹ نہ ہوتی تھی۔ اوپر چاروں طرف پل اور سڑکوں کی چھت تھی۔ جہاں میں بیٹھا تھا، اس کے اوپر بھی ایک چوڑا پل تھا، جس کے ستون سڑک کے برابر چوڑے اور زمین تک پہنچتے پہنچتے آدھے رہ گئے تھے۔ اس کے متوازی بھی چند گز کے فاصلے پر ایک ایسا ہی اور پل گزر رہا تھا۔ لیکن کسی گاڑی کے گزرنے کی آواز نہ آتی تھی۔ نیچے سکون ہی سکون تھا۔ میں نے فیصل سے پوچھا کہ یہ پل تو گاڑیوں کی گزرگاہ ہے، لیکن کسی گاڑی کے گزرنے کی آواز نہیں آرہی، جبکہ نیچے بیٹھنے پر سر پر طبلے بجنے چاہئے تھے۔ اس نے بتایا کہ میٹریل صحیح اور پوری مقدار میں استعمال کیا جائے تو آواز اوپر کی اوپر رہ جاتی ہے، نیچے نہیں آتی۔ اگر آپ غور سے سنیں تو وقفے وقفے سے گھڑی کی ٹک ٹک جیسی آواز سنائی دے گی۔ یہ جوائنٹ پر سے گزرنے کی آواز ہے۔ پارک کے چاروں طرف گاڑیاں گولی کی رفتار سے گزر رہی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی تیز رفتاری خوف زدہ کر دینے والی تھی۔ جس کا اظہار میں نے کاشف سے کیا تو اس نے کہا کہ اس میں خوف کھانے کی کوئی بات نہیں۔ جب ہم سفر کرتے ہیں تو یہی رفتار ہوتی ہے، اس وقت کبھی آپ کو محسوس ہوا کہ ہم انتہائی خطرناک رفتار سے جا رہے ہیں۔ یاد کرنے پر بھی مجھے کوئی لمحہ یاد نہ آیا۔ کاشف نے بتایا کہ یہاں سب 120 کلو میٹر کی رفتار سے جا رہے ہیں۔ گاڑی چلاتے وقت یہ رفتار غیر معمولی نہیں لگتی، بلکہ عام سی لگتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم قانون کے مطابق اس سے کم رفتار میں چل ہی نہیں سکتے۔ اگر چلیں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔
سورج ڈھل چکا تھا۔ خواتین نے راستے سے ہٹ کر ڈیرہ جما لیا تھا اور رات کے کھانے کی فکر میں تھیں۔ دریاں بچھا کر چولہے روشن کر دیئے گئے۔ کھانا کھانے والوں سے زیادہ کھانا بنانے والیاںجوش و خروش کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ بچوں نے فٹ بال اور بیٹ بال نکال لیے تھے اور گرائونڈ طے کی جارہی تھی۔ اندھیرا پھیلنے میں ابھی کافی وقت تھا۔ دھوپ پھیکی پڑ رہی تھی۔ اچانک میں نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو دور اور بہت سارے چھوٹے بڑے گنبد نظر آئے، جو چاندی کی طرح چمک رہے تھے۔ پرپل کلر کے ویگنٹ نما ہلکے بادلوں میں سے جھانکتے ہوئے یہ گنبد کسی آرٹسٹ کو دیوانہ بنانے کے لیے کافی تھے۔ شاہانہ طرز تعمیر کے باوجود ان میں آفاقیت جھلکتی تھی۔ یہ ابوظہبی کی گرینڈ مسجد کے مینار اور گنبد تھے۔ پہلی دفعہ دیکھنے پر آنکھیں پلک جھپکنا بھول جاتی ہیں۔ میں تادیر انہیں مرکز نگاہ بنائے رہا۔ لگتا تھا ان گنبدوں نے مجھے ہپناٹائز کر دیا ہے۔ نگاہیں نہ تھکتی تھیں نہ ہٹتی تھیں۔ کوئی مقدس سحر تھا، جس نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ یہ دیر تک دیکھنے کا شاخسانہ تھا یا دھوپ چھائوں کی آنکھ مچولی۔ مجھے یوں لگا جیسے کوئی ان گنبدوں کے بیچوں بیچ کوئی مجھے جھانک رہا ہے۔ بس کوئی واہمہ سا تھا۔ صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں۔ میری اسے دیکھنے کی تمام کوششیںبے سود رہیں تو لگا مجھے کوئی بلا رہا ہے۔ آواز بالکل صاف اور واضح تھی۔ لہجہ خالص عربی۔ یہ طلسم اس وقت ٹوٹا جب مؤذن نے اللہ اکبر۔ اللہ اکبر کہا۔
فضا اللہ کی کبریائی سے بھر گئی۔ ہر سمت سنجیدگی چھا گئی۔ ہر چہرے پر تقدس کا نور پھیل گیا۔ پارک میں موجود لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔ وضو کی جگہیں تلاش ہونے لگیں۔ دور تک پکنک منانے والوں کی ٹولیاں نماز کی تیاری میں مصروف ہو گئیں۔ سفری مصلے بچھنے لگے۔ وسیع و عریض پارک مسجد میں تبدیل ہو گیا۔ تکبیر ختم ہوتے ہی لوگ اللہ کے حضور کھڑے ہو گئے۔ پھر نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔
کسی اسلامی ملک کی صحیح شناخت کا جلوہ دیکھنا ہو تو اس سے بہتر شاید ہی کوئی جگہ آپ کو ملے۔
نماز سے فراغت پاتے ہی خواتین نے اعلان کیا کہ کھانا تیار ہے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، اگر کھانا ٹھنڈا پڑ گیا تو مزہ روٹھ جائے گا۔ بہتر ہے کہ کھانے کو ناراض نہ ہونے دیں۔ فیصل گرم گرم روٹی لے آیا تھا۔ اس کھلی جگہ پر کھانا پکانا بھی ایک چیلنج تھا، جو خواتین نے خوش دلی سے قبول کیا تھا۔ کڑھائی گوشت اور کباب بچوں کے لیے فرنچ فرائز بنائے گئے۔ کھانے لذت سے بھرپور تھے۔ خواتین نے پکانے کا حق ادا کر دیا اور پکنک کا مزہ دوبالا ہو گیا۔ لذت طعام کے باعث ہاتھ روکنا مشکل تھا۔
کھانے کے بعد خوش گپیاں شروع ہو گئیں، جو دیر تک جاری رہیں۔ بچے اب تک فٹ بال کھیلتے رہے اور اب کرکٹ کی باری تھی۔ بچوں نے بیٹ بال سنبھال لیے۔ کاشف اور فیصل پیش پیش تھے۔ باری باری بیٹنگ اور بائولنگ ہونے لگی۔ باقی لوگوں نے فیلڈنگ سنبھال لی سوائے میرے اور خواتین کے۔ آخر کرائوڈ بھی تو ہونا چاہئے۔ جو داد دے اور شور مچا سکے۔
پہلا چھکا شجاع نے لگایا۔ کرائوڈ نے تحسین اور شور سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بائولر سنبھل کر کھیلنے لگے۔ جب کوئی چوکا چھکا لگتا خوب شور اٹھتا۔ کرکٹ کھیلنے والے ایک ہم ہی نہ تھے۔ پورے پارک میں کھیلنے والوں کی ٹولیاں بکھری ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ سے ہاہو اور قہقہوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ میرے پوتے پوتیاں جب شور کرتے تو دادا کے جسم میں بجلیاں کوندنے لگتیں۔ لگتا تھا لمحہ بھر کے لیے جوانی واپس آگئی ہو۔ لیکن میں تو بچوں کے ساتھ بچہ بن گیا تھا۔ یہ شور میرے خون کا تھا جو کھیل رہے تھے، وہ بھی میرا ہی خون تھے۔ پھر یہ خون اس کھیلنے والے نئے خون کی ہم نوائی کیوں نہ کرتا، میری آواز ان کی آواز میں شامل کیوں نہ ہوتی؟ ٭
اس دھما چوکڑی میں عشا ہو گئی۔ بیشتر ٹولیاں رخصت ہو چکی تھیں، باقی تیاریاں کررہی تھیں۔ نماز کے بعد ہم بھی واپسی کے لیے گاڑیوں میں آبیٹھے۔ اور چند لمحوں بعد ہم تیز رفتاری سے چلنے والے ٹریفک میں شامل ہو چکے تھے۔
٭٭٭٭٭
Next Post