مسعود ابدالی
امریکی وزارت خارجہ کے افسران ایک بار پھر پاکستانی حکام کے ’’بچگانہ‘‘ رویئے پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو اسے بچگانہ کے بجائے بے شرمی کہنا زیادہ مناسب ہوگا اور ایسا اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا 30 نومبر 2016ء کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ڈونالڈ ٹرمپ کو فون کیا تھا۔ اس وقت موصوف نومنتخب امریکی صدر تھے کہ انہوں نے اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا تھا۔
میاں صاحب کی گفتگو کا بنیادی مقصد مسٹر ٹرمپ کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دینا تھا۔ تاہم ٹیلی فون منقطع ہوتے ہی پاکستانی وزارت اطلاعات کے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (PID) نے اس بات چیت کی ساری تفصیلات جاری کر دیں اور اس کے اجرا سے پہلے ٹرمپ آفس کو بھی مطلع نہیں کیا گیا، جو سفارتی آداب کے خلاف ہے۔
اسلام آباد سے جاری ہونے والے اعلامیے سے تو ایسا لگا کہ گویا مسٹر ٹرمپ بھی مسلم لیگ (ن) کے ایک کارکن ہیں کہ چند منٹ کی گفتگو میں نو منتخب امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ حالانکہ اس قسم کی رسمی گفتگو میں ایک دوسرے کی تعریف و توصیف تہذیب کا حصہ ہے اور خاص طور سے جب فون بھی مبارکباد کے لئے کیا جا رہا ہو۔ پاکستانی وزارت اطلاعات کے اس پریس ریلیز پر واشنگٹن کو حیرت ہوئی اور اس سے پاکستانی حکمراں کی کم ظرفی کا اظہار ہوا۔
ایسا ہی معاملہ اس بار بھی ہوا ہے۔ 24 ستمبر کی شب صدر ٹرمپ کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آنے والے مہمانوں کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہمتام ہوا، جس کے لئے پاکستانی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی دعوت دی گئی۔ میزبان صدر اپنے احباب کے ہمراہ دروازے پر کھڑے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے اور اس دوران مصافحے اور معانقے پر رسمی و روایتی جملوں کا تبادلہ بھی ہو رہا تھا۔ جب قریشی صاحب تشریف لائے تو ان کا بھی صدر ٹرمپ نے پرتپاک استقبال کیا اور پاکستانی وزیر خارجہ کی وجاہت کی تعریف کرتے ہوئے قدرے زور سے کہا: You look wonderful اسی کے ساتھ چند دوسرے رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا اور صدر ٹرمپ نے عمران خان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
ایک منٹ سے بھی کم وقت جاری رہنے والی اس ’’ملاقات‘‘ کو دوسرے دن شاہ صاحب نے اس انداز میں بیان کیا، جیسے یہ ایک سنجیدہ مذاکرات تھے۔ شاہ صاحب نے فرمایا ’’کل رات ریسیپشن پر صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی‘‘ اس کے بعد انہوں نے اس ’’ملاقات‘‘ کے دوران ہونے والی گفتگو کی تفصیل بھی بیان کی۔ تمام پاکستانی اخبارات نے اس ’’ملاقات‘‘ کو شہہ سرخی کی زینت بنایا۔ امریکی وزارت خارجہ کو حیرت ہے کہ استقبالیہ میں روایتی ہیلو اور ہائے کو پاکستانی وزیر خارجہ نے ملاقات کا درجہ دے دیا؟؟ ایسی ’’ملاقات‘‘ تو اس رات صدر ٹرمپ نے 200 سے زائد عالمی رہنمائوں سے کی تھی، لیکن کسی بھی اور لیڈر نے اخباری نمائندوں کو ملاقات کی ’’تفصیلات‘‘ نہیں بتائیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے کم ظرفی کے مظاہرے نے واشنگٹن میں پاکستان مخالف لابی کے لئے مسکراہٹ کا سامان پیدا کر دیا۔ دراصل یہ وہ احساس کمتری ہے، جس میں پاکستانی قیادت گزشتہ 71 سال سے مبتلا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، پرویز مشرف بھی فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں جب چاہتا ہوں صدر بش کو فون کرلیتا ہوں، امریکی صدر نے مجھے اپنا ذاتی موبائل نمبر بھی دیا ہوا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post