عظمت علی رحمانی
جماعت اسلامی آئندہ سال جنوری میں لندن میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد کرے گی۔ اس کانفرنس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، چیف جسٹس (ر) آزاد کشمیر جسٹس منظور حسین گیلانی، احمر بلال صوفی سمیت دنیا بھر کے ماہرین قانون کو مدعو کیا جائے گا۔ کانفرنس کے بعد اقوام متحدہ کے ذریعے جنرل قانون منظور کرایا جائے گا، جس میں کسی بھی مذہب کی برگذیدہ شخصیت کی توہین کو جرم قرار دیا جائے گا۔
قادیانیوں کی جعل سازی کو روکنے اور عالمی سطح پر امتناع قادیانیت ایکٹ کو نافذ کرنے کیلئے جماعت اسلامی کی جانب سے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ سابقہ حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل کے نام پر دستور کی ذیلی دفعہ 3 کی شق نمبر اے اور بی کو ختم کرنے کے بعد عدالتی احکامات کے باوجود سپلیمنٹری لسٹ آف ووٹرز کو بحال نہیں کیا گیا، جس کا فائدہ قادیانیوں کو پہنچا۔ معلوم رہے کہ مذکورہ سپلیمنٹری لسٹ آف ووٹرز یعنی کنٹریکٹ آف جنرل الیکشن آرڈر 2002 کی شق نمبر 48 اے کے ذیلی سیکشن سیون اے کو دوبارہ بحال نہیں کیا گیا، جس میں کوئی بھی قادیانی جب اپنا عقیدہ غلط ظاہر کرے گا تو اس کی نشاندہی ہو جانے کے بعد اس قادیانی کو اس ایکٹ کے تحت اس لسٹ میں ڈالا جائے گا۔ مذکورہ باریک نقطے کو دوبارہ ایکٹ میں شامل کرنے کیلئے اور امتناع قادیانیت ایکٹ کو عالمی سطح پر نافذ کرنے کیلئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی زیر صدارت اسلام آباد میں قانونی ماہرین کی کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس میں سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری، بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی، سابق چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر منظور حسین گیلانی، رکن قومی اسمبلی مولانا اکبر چترالی، جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، ایڈووکیٹ اسداللہ بھٹو، سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر و ممبر قانون ساز اسمبلی عبدالرشید ترابی، اشتیاق احمد ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سید انور شاہ، شیخ احسن الدین، ملک محمد عامر، توفیق آصف، جاوید سلیم شورش، ضیاء الدین انصاری، خان افضل خان ایڈووکیٹ سمیت دیگر ماہرین قانون شریک ہوئے تھے۔ کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ تحفظ ناموس رسالت اور ختم نبوت پر عالمی قانون سازی کے لئے جنوری 2019 ء میں لندن اور جنیوا میں عالمی قوانین کے ماہرین کی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ اس کی پالیسی بنانے کیلئے جماعت اسلامی کی جانب سے 4 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری، چیف جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی، احمر بلال صوفی اور اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ کمیٹی کے ممبر اسداللہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’اس کمیٹی کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے کسی بھی مذہب کی برگذیدہ شخصیات کی توہین کو عالمی طور پر جرم قرار دیا جائے۔ دستور پاکستان 260 کی ذیلی شق 3 پر عالمی سطح پر عمل درآمد ہونے سے کسی کو بھی دوسرے مذہب سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ مسلمان وہی ہوگا جو ختم نبوت پر یقین رکھتا ہوگا۔ جبکہ غیر مسلم کرسچن، ہندو، سکھ، احمدی گروپ یا لاہوری گروپ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے یا کسی اور نام سے بھی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ قادیانی چونکہ اس دستور کو ہی نہیں مانتے، اس لئے وہ مسلمان نہیں۔ دستور پاکستان کی دفعہ 5 کے مطابق ہر شہری ملک پاکستان کا وفادار ہو گا اور دستور کو مانے گا۔ پینل کوڈ کی دفعہ 298 سی کے مطابق دستور کو نہ ماننے والا شخص مجرم ہے، جس کی سزا 3 سال قید ہے۔ لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ امتناع قادیانیت ایکٹ پر عمل درآمد کیلئے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر ایک جدوجہد کی جائے، جس میں عالمی ماہرین قانون شامل ہوں۔ ہم نے کمیٹی قائم کی ہے، جس کے بعد اب دوبارہ اجلاس ہوں گے۔ اجلاس کا ایجنڈا واضح کیا جائے گا۔ عالمی ماہرین قانون کی لسٹ تیار کی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ دنیا بھر کے ہر ملک سے ماہرین قانون اس میں شامل کئے جائیں‘‘۔
سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر منظور حسین گیلانی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میں نے اس کانفرنس میں تجویز دی ہے کہ ویسٹ ہمارے پیغمبرؐ کی توہین کر کے ہمارے جذبا ت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہمیں اس موقع پر مشتعل ہونے کے بجائے اور ان کے فارمولے کے مطابق جذباتی ہونے کے بجائے مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دلیل سے سمجھانا ہے۔ ان کو بتایا جانا چاہئے کہ ان کے قوانین کے مطابق بھی کسی بھی برگزیدہ شخصیت کی توہین ممنوع ہے۔ ان کو بتانا ہے کہ یہ ہماری ریڈ لائن ہے۔ نہ ہم اس سے آگے جاتے ہیں اور نہ کسی کو جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہمیں ویسٹ سے ایگریمنٹ سائن کرنا چاہئے۔ اس کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں ہم نے لوگوں کے ساتھ رابطے کرنے ہیں۔ میری تجویز یہ بھی تھی کہ ہم اس میں اپنے ساتھ ایران، ترکی وغیرہ کو بھی شامل کریں۔ ہم سب دنیا کو سمجھائیں، خصوصاً اسلامک بلاک کو سمجھائیں کیونکہ سلمان رشدی والے واقعے میں اسلامک بلاک ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ ہم نے مل کر مغربی دنیا کو بتانا ہے کہ جب ہم ہالو کاسٹ کے خلاف بات نہیں کرتے تو آپ بھی ہمارے جذبات کا خیال کریں‘‘۔
جماعت اسلامی کے رہنما اور لیگل ایڈوائزر سیف اللہ گوندل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے سب کو کہا ہے کہ آگے آئیں، ہمارا ساتھ دیں اور پوری دنیا میں ہم یہ ڈیکلیریشن سائن کرائیں کہ کوئی بھی ملک، کمیونٹی کسی بھی مذہب کی برگذیدہ شخصیت کی توہین نہیں کرے گا‘‘۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مطابق اس کانفرنس کا انعقاد مثبت قدم ہے۔ ناموس رسالت کا تحفظ اور گستاخی کرنے والوں کا سدباب کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک فورم بنایا جائے جو اس مسئلے کو دیکھے۔ جس طرح دیگر مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے، اسی طرح ہم بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ شان رسالت میں کوئی گستاخی کرے۔ ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ ہم خاتم النبینؐ کی ذات کے متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ختم نبوت کا قانون ہمارے دستور کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ ختم نبوت کا قانون پاس کرنے والی اسمبلی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بتا دیا ہے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے۔ مسلمان صرف وہی ہے جو رسول اکرمؐ کے آخری نبی ہونے پر یقین رکھے گا۔ قادیانیوں کے حوالے سے جسٹس شوکت صدیقی کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ میں جن کے نام ہیں، ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے‘‘۔
عالمی ماہر قانون احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ ’’میں نے کانفرنس میں تجویز پیش کی ہے کہ نوجوان وکلا کی ایک کانفرنس بلائی جائے اور ان میں بین الاقوامی قوانین پر علمی اور تحقیقی کام کیا جائے، تاکہ ہم اس کو عالمی سطح پر لے کر جائیں۔ اس کے بعد سینیٹ میں اس حوالے سے بل لایا جائے اور اس کے بعد او آئی سی کو سینیٹ سے پاس کردہ بل ریکمنڈ کیا جائے۔ اس کے بعد بین الاقوامی کنونشن کا ڈرافٹ تیار کیا جائے، تاکہ دنیا بھر سے مذاہب کی توہین کرنے والوں کی روک تھام ممکن ہو سکے۔ میں نے کہا ہے کہ اگر میری کہیں بھی خدمات کی ضرورت ہو تومیں حاضر ہوں‘‘۔
معلوم رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما اور سینٹر حماد اظہر کی جانب سے 295-C میں تبدیلی کیلئے ایک بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے، جس کو متعلقہ قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا ہے۔ جس کے تحت اگر کوئی گستاخی کرنے والے کے خلاف درخواست دیتا ہے اور عدالت میں وہ ثابت نہ ہو تو اس کو بھی سزائے موت ملے گی۔ ماہرین قانون کے مطابق دنیا میں اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ مدعی اور ملزم کو ایک ہی طرح کی سزا دی جائے۔
٭٭٭٭٭