سید ارتضی علی کرمانی
پیر صاحبؒ اور انگریز حکومت:
حضرت پیر سید مہر علیؒشاہ صاحب نے انگریز حکومت کا دور عروج پایا۔ ایک ایسا دور جب بڑے بڑے مولوی انگریز حکومت کی خوشنودی چاہنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے تھے۔ کچھ مصلحت اندیش تھے تو کچھ اپنی ضروریات کے تاب، مگر آپ نے کسی بھی قسم کی رعایت یا غرض کی وجہ سے حکمرانوں کی حمایت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اپنے مسلک پر قائم رہے۔آپ نے کسی بھی حیلہ، بہانے سے بلوائے جانے پر بھی انگریز حکومت کے افسروں سے ملنا گوارا نہ کیا۔ یہاں تک کہ جب ایک وسیع و عریض جاگیر بھی انگریزوں نے دینے کی کوشش کی تو حضرت صاحب نے انکار فرمادیا۔
اسی کے ساتھ آپؒ نے غیر شرعی تحریکات میں بھی شمولیت یا حمایت سے انکار کیا، مگر آپ نے کبھی ہندوستان کی آزادی کی دعا نہ فرمائی، بلکہ ہمیشہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے دعا فرماتے رہے۔ مولانا ظفر علی خاں صاحبؒ جو کہ مسلمانوں کے محکوم اور مظلوم ہونے پر کڑھتے رہتے تھے، حضرت صاحبؒ کے پاس حسب معمول آئے، مگر ایک بہت عمدہ کہہ دی۔ آپ نے فرمایا: کہئے! مولانا آج کیسے آنا ہوا۔ مولانا چونکہ سیاست میں بہت پیش پیش رہتے تھے۔ حضرتؒ کا خیال تھا کہ کچھ ملکی حالات پر گفتگو ہوگی، مگر مولانا کہنے لگے۔
’’جناب میں تو اولیا کے اس دربار سے مسلمانان ہند کیلئے سلطنت مانگنے آیا ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر حضرت صاحبؒ سوچتے رہے، پھر ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ ’’میں دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کیجئے کہ حق سبحانہ تعالیٰ اس ملک کے مسلمانوں کو آزادی نصیب فرمائیں اور ایسی حکومت بخشیں جو ان کے دین کی خدمت کر سکے‘‘
اس دعا کی قبولیت حضرت صاحبؒ کی رحلت کے 10 برس بعد ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
بات ہورہی تھی تاج برطانیہ اور پیر صاحبؒ کے متعلق، حضرت صاحبؒ نے کسی بھی طریقہ سے انگریزوں سے کسی بھی قسم کی مراعات لینے کی کوشش نہیں کی۔ لوگوں نے آپ کو اس سلسلے میں کافی ترغیبات بھی دیں۔ ایک مرتبہ، 1911ء کا واقعہ ہے، جب چارج پنجم ہندوستان آیا تو اس سے مذہبی راہنماؤں کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا، یہ دربار دہلی میں منعقد کیا جانا تھا۔ سبھی مذہبی پیشواؤں کی طرح آپ کو بھی دعوت دی گئی مگر آپ نے بلا خوف و خطر فوری طور پر انکار کردیا اور جواب لکھوایا کہ مجھے اس حاضری سے معذور سمجھا جائے۔
حکومت کو اس انکار سے ایک دھچکا محسوس ہوا۔ لوگ تو خود ہی دعوت ناموں کی فرمائشیں کررہے تھے، مگر حضرت صاحبؒ نے واضح انکار کر کے ان کو الجھن میں مبتلا کر ڈالا تھا۔ انگریز حکومت کو ایک باخبر حکومت خیال کیا جاتا ہے۔ انگریزوں کو معلوم تھا کہ حضرت صاحبؒ محض ایک علاقہ کے پیشوا نہیں بلکہ پنجاب، سرحد اور آزاد قبائل میں بھی ایک اکثریت ان کی عقیدت مند ہیں۔ آپؒ کی غیر حاضری حکومت کے لیے کوئی اچھا شگون نہ تھی۔
اس جواب کو انگریز اپنی ہتک بھی سمجھ رہے تھے۔
انکار موصول ہوتے ہی انگریزوں نے راولپنڈی کے کمشنر کے ذمہ یہ فرض لگایا کہ کسی طرح پیر صاحبؒ کو راضی کیا جائے۔ کمشنر نے ایک مجسٹریٹ ڈپٹی مظفر خان کو روانہ کیا۔ اس کے بعد آپ کے ایک اردات مند میاں شیخ احمد ٹھٹہ گورمانی ضلع مظفر گڑھ کو بھی روانہ کیا، ان کے ذمہ حضرت صاحبؒ کو دہلی کے لیے آمادہ کرنا تھا۔ ان دونوں اصحاب نے حضرت صاحب کو آمادہ کرنے کے لیے عرض کیا کہ جناب آپ کو دوران سفر کوئی تکلیف نہ ہوگی، آپ کے لیے ریل گاڑی کا ایک ڈبہ مخصوص کروایا جائے گا اور صرف ایک دن کے لیے جب کہ شہنشاہ مذہبی راہنماؤں کا سلام لیں گے آپ کو دربار میں جاکر ان کے حق میں دعا کرنا ہوگی۔
حضرت پیر مہر علی شاہؒ جو کہ غوث الاعظمؒ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، بھلا کیوں کر اس پیش کو قبول فرما سکتے تھے، وہ تو خود شہنشاہ تھے۔ آپ نے ان حضرات سے کمشنر کی روبکار لیکر اس پر تحریر فرمایا کہ ’’میں ایک درویش ہوں اور درویشوں کی حاضری شاہی درباروں میں کبھی مناسب خیال نہیں کی جاتی۔ تاہم اس حکومت میں ہمارے سچے مذہب اسلام کے ارکان پر چونکہ کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے بادشاہ کے لیے یہیں سے ہی دعا کرتا ہوں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post