’’ریفرنڈم 2020ء‘‘

0

سردار منو سنگھ کینیڈین سکھ ہیں، وہاں ان کا گاڑیوں کا شو روم ہے، اچھے خاصے خوشحال شہری ہیں، سال دو سال بعد بال بچوں کے ساتھ لاہور اترتے ہیں اور ننکانہ صاحب پر ماتھا ٹیکتے ہیں، کئی پاکستانی سیاستدان ان کے دوستوں میں سے ہیں، جو کینیڈا میں ان کے مہمان رہتے ہیں، منو سنگھ ان سکھوں میں سے ہیں، جنہوں نے 84ء میں بھارتی فورسز کی جانب سے سکھوں کے قتل عام کے بعد کینیڈا کا رخ کیا اور یہاں کی شہریت اختیار کر لی۔ سردار منو سنگھ نے سکھوں کا قتل عام اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے، ان کے جگری دوست اور سجن کرتار سنگھ نے چھلنی چھاتی کے ساتھ ان کی گود میں دم دیا تھا۔ سردار جی کہتے ہیں کہ گولڈن ٹیمپل پر حملے کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات میں مارنے جانے والے سکھوںکا کوئی شمار نہیں، ان گنت سردار قتل کئے گئے، فورسز نے نظر آنے والے ہر سکھ کو غدار سمجھ کر زمین پر بوجھ مان لیا تھا، جو بھی نظر آتا سیدھا چھاتی میں گولی مار دی جاتی۔ سردار منو سنگھ سے سیلانی کا رابطہ سوشل میڈیا پر حریت پسند سکھوں کے ایک پیج پر ہوا۔ سردار جی دو بار کراچی بھی آچکے ہیں اور انہیں ابھی تک صدر میں زاہد کی نہاری کا ذائقہ یاد ہے، انہیں جب علم ہوا کہ سیلانی کا تعلق بھی کراچی سے ہے تو گپ شپ لگانے لگے۔ اسی تحریری گپ شپ کے دوران سیلانی نے سردار جی سے ریفرنڈم2020ء کے بارے میں پوچھ لیا کہ یہ ریفرنڈم ہے کیا بلا؟ جواب میں سردار جی نے سیلانی کو اچھا خاصا شرمندہ کر دیا اور کہنے لگے:
’’سچ دسو! تہانوں بالکل بھی نئیں پتہ؟ تہاڈے نال مجاق ہے نئیں ورنہ میں پوچھدا تسی پیگ شیگ دے شوقین تے نئیں‘‘
(سچ بتائیں! آپ کو بالکل بھی نہیں پتہ، آپ سے مذاق نہیں، ورنہ میں پوچھتا کہ آپ پینے پلانے کے شوقین تو نہیں)
سیلانی نے فوراً جواب دیا ’’سردار جی آج تک نشہ نہیں کیا، لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’پینے پلانے والے ہی آس پاس سے اتنے بے خبر ہو سکتے ہیں، پوری دنیا میں ریفرنڈم 2020ء نے دھوم مچائی ہوئی ہے، بھارت اتنا پریشان ہے کہ آپ سوچ نہیں سکتے اور آپ کو پتہ ہی نہیں، آپ تو صحافی بھی ہو؟‘‘
’’اب ایسا بھی نہیں، مجھے تفصیلی علم نہیں ہے، اس بارے میں نے سرسری سن رکھا ہے۔‘‘
’’جی یہ سکھوں کے ہیومن رائٹس کی تنظیم ہے، جس نے 2020ء میں خالصتان کے لئے ریفرنڈم کا اعلان کیا ہوا ہے، اس میں آن لائن ووٹنگ ہوگی۔‘‘ سردار جی نے سیلانی کو ان بکس میں ویڈیوز بھی بھیج دیں اور کہنے لگے: میں دس منٹ میں آتا ہوں، آپ جب تک یہ دیکھیں۔
پہلی ویڈیو بھارتی نیتاجی سبرامنیم کی تھی۔ یہ اچھی صحت اور پڑوسیوں کے لئے منفی خیالات رکھنے والے بھارتی سیاستدان ہیں۔ اتر پردیش کے اس گورے چٹے بوڑھے سیاستدان کا دل اپنے پڑوسیوں کے حوالے سے کالا سیاہ ہے، پاکستان سے انہیں خاص چڑ ہے، یہ اٹھتے بیٹھتے پاکستان کے چار ٹکڑے کرنے کی باتیں کرتے ہیں، یہ ویڈیو دو سال پرانی تھی، جس میں سبرامنیم ایک انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ ’’مارچ اپریل 2018ء میں بھارتی فوج پاکستان میں داخل ہو کر اس کے چار ٹکڑے کر دے گی اور بھارت کے پڑوس میں یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔‘‘ مارچ اپریل گزرے بھی چار مہینے ہوگئے، جناب کی فوج حرکت میں نہیں آئی… گلابی کرتا پہنے یہ بابا جی پاکستان توڑنے کی بات یوں کر رہے تھے، جیسے پاکستان نہ ہوا، سامنے تھالی میں پڑا کڑک پاپڑ ہو گیا۔
منو سنگھ کا بھیجا ہوا دوسرا کلپ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیتا جی چوہدری لعل سنگھ کا تھا۔ یہ اس کشمیر کے سابق حکومت کے وزیر رہ چکے ہیں، جہاں یوم جمہوریہ پر کرفیو لگائے بنا بھارتی ترنگا لہرانا ممکن نہیں۔ چوہدری لعل سنگھ کی بی جے پی میں اچھی خاصی سنی جاتی ہے۔ وہ سترہ جون 2018ء کو اپنی حکومت کو صلاح دیتے ہیں کہ پاکستان سے محدود جنگ شروع کر دی جائے، کیوںکہ اب وقت آگیا ہے کہ پڑوسی کو سبق سکھایا جائے۔
تیسرا کلپ بھارتی وزیر دفاع نرملا سیٹھارمن کا ہے۔ تامل ناڈو کی یہ بھارتی ناری اپنے انٹرویو میں بڑھک مار رہی ہیں کہ بھارتی فوجیوں نے پاکستان میں گھس کر پاک آرمی کے جوانوں کے سر کاٹے ہیں۔ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں وہ بھارتی جنتا کو حوصلہ دے رہی ہیں کہ ہمارے سورماؤں نے پاکستان میں گھس کر ایک دو نہیں، متعدد پاکستانی فوجیوں کے سر کاٹے ہیں اور یہ بھارتی فوجی کے کاٹے گئے سر کا جواب ہے، البتہ اس انٹرویو میں انہوں نے ان پاکستانی فوجیوں کے سر دکھانے کے سوال پر سرجیکل اسٹرائیک والا جواب دیا کہ ہم نے کہہ دیا کافی ہے مان لیں۔ وہ اس سوال کے جواب میں کہہ رہی تھیں کہ اس کی ضرورت نہیں۔ اس سفید جھوٹ کو تھوڑی دیر کے لئے سچ بھی مان لیا جائے تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی وزیر دفاع ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں غیر انسانی فعل کا سر عام اعتراف کر رہی ہیں اور انہیں کوئی احساس نہیں کہ دنیا کیا کہے گی اور واقعی دنیا نے کچھ نہیں کہا؟ کیوں کہ نرملا صاحبہ مسلمان تھیں، نہ پاکستان سے تھیں۔
سردار جی نے اس کے ساتھ جسٹس فار سکھ کی ویڈیوز کے کئی لنک بھی بھیجے، پاکستان مخالف ویڈیوز بھیجنے کا مقصد یقینا یہی تھا کہ پاکستان اور سکھوں کا دشمن ایک ہے اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ سیلانی کے اس خیال کا اعتراف سردار جی نے پندرہ منٹ بعد آن لائن ہونے کے بعد پہلے ہی جملے میں کر دیا، لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ان کے الفاظ ابھرنے لگے:
’’یہ پاکستان کو سبق سکھانا چاہتے ہیں اور اکیس ملین سکھوں کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ ہم وردیاں پہن کر ان کے چوکیدار بنے رہیں، بارڈروں پر ڈیوٹیاں دیں، ان کے لئے غلہ اگائیں، ٹرک چلائیں اور یہ مزے سے راج نیتی کرتے رہیں، لیکن ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب آزادی لینی ہے، میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ پاکستانی ہمیں سپورٹ تو کرتے ہیں، لیکن انہیں ہماری اس تحریک کا زیادہ پتہ نہیں، اب آپ خود ہی کو دیکھ لو… ہیں جی!‘‘
سردار منو سنگھ کا کہنا تھا کہ اس وقت کینیڈا کی حکومت میں وزیر دفاع سمیت چار اہم وزارتیں سکھوں کے پاس ہیں۔ ساڑھے چار لاکھ سکھ کینیڈا میں مضبوط کمیونٹی کا حصہ ہیں اور یہاں خالصتان کی تحریک خاصی مشہور اور مضبوط ہے۔ سردار جی پرامید ہیں کہ ایک دن کشمیری اور سکھ بھارت کی غلامی سے نکل جائیں گے۔ سیلانی کی منو سنگھ سے گپ شپ زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکی۔ ان کے شوروم میں کوئی گاہک آگیا، جس کے بعد سردار جی کہنے لگے: ’’لیں جی، گرو کی کرپا سے گاہک آگیا ہے، مجھے اب اجازت دیں، پھر بات ہوگی۔‘‘
سردار منو سنگھ سائن آف ہو گئے، لیکن سیلانی کا ذہن ریفرنڈم 2020ء کو سائن آف نہیں کر سکا۔ آسام، ناگالینڈ، کشمیر، خالصتا، منی پور… بھارت میں متعصب براہمن راج نے اقلیتوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ کیا مسلمان اور کیا سکھ، کیا عیسائی… کوئی بھی بھارت میں متعصب ہندوؤں سے خوش نہیں۔ بھارت خود کو سنبھالنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں مالدیپ، سری لنکا، پاکستان، بھوٹان اور نیپال کو دبانے کے تانے بانے بننے میں لگا رہتا ہے اور وہ اپنی ازلی طبیعت سے باز بھی نہیں آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہم بھارت کو کس حد تک کاؤنٹر کرپا رہے ہیں؟ وہ اب افغانستان سے مل کر ہماری طرف آنے والے دریاؤں کے قدموں میں زنجیریں ڈالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ افغانستان بھارت کی مدد سے ڈیم بنا رہا ہے۔ ایسا ہو گیا تو پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کے صرف نشان نہ رہ جائیں گے؟ وقت تیزی سے سرک رہا ہے اور ہم ازلی سستی کا لحاف اوڑھے چارپائی سے نیچے نہیں اتر رہے۔ بھارت کی کمزوریوں کو ہم اپنی طاقت کا حصہ کیوں نہیں بنا رہے؟ اسلام آباد میں تبدیلی کے بعد ہماری وزارت خارجہ دفاعی مورچوں سے کب باہر نکلے گی اور کب آگے بڑھے گی؟ ان مسائل کو کب اٹھایا جائے گا؟ کشمیر پر کب بات ہوگی؟ دریاؤں کا مسئلہ کب اٹھایا جائے گا؟ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات پر بھارتی ہاتھ کب پکڑ کر دنیا کے سامنے لہرایا جائے گا؟ اسلام آباد میں تبدیلی کے بعد بھی وزارت خارجہ کے چلن میں تو کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی۔ یہ تبدیلی ہم کب محسوس کریں گے… سیلانی یہ سوچتا ہوا سردار منو سنگھ کی بھیجی ہوئی ویڈیوز دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More