اسلام آباد ( محمد فیضان) بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ذریعے سی پیک کی مانیٹرنگ کے لیے امریکی کوشش ناکام ہوگئی، منصوبوں کی تفصیلات جاننے کے لیے کوشاں آ ئی ایم ایف جائزہ مشن کے مسلسل سوالات پر پاکستانی حکام نے کوراجواب دے دیا ،پاکستان کاموقف ہے کہ آئی ایم ایف کا ان منصوبوں سے کو ئی تعلق نہیں تا ہم جائزہ مشن کو سی پیک منصوبوں اور ان پر پیشرفت سے آ گاہ کیا گیاہے ،بالخصو ص ایم ایل ون پراجیکٹ کے تحت ریلوے لا ئن کی تعمیر کے 8.2ارب ڈالر لا گت کے منصوبے سے متعلق بھی بریف کیا گیا۔تفصیلات کے مطابق آ ئی ایم ایف کا جا ئزہ مشن پاکستانی حکام کے ساتھ اب تک ہو نے والی ملاقا توں اور ا جلاسوں میں سی پیک منصوبوں اور ان کے معا ہدوں سے متعلق تفصیلات پو چھنے کی کوششوں میں لگا ہو اہے۔ آئی ایم ایف مشن کی گزشتہ روز وزارت منصوبہ بندی کےحکام کے ساتھ بات چیت ہو ئی جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کررہے تھے۔ وزارت منصوبہ بندی نے آ ئی ایم ایف حکا م کو پاکستان میں مائیکروا کنا مک کے شعبے میں استحکا م اور سی پیک منصوبے کے حوالےسے اقداما ت پر جا ئزہ پیش کیا۔ آ ئی ایم ایف وفدنے ملاقات میں وز ارت منصوبہ بندی کے حکام سے سی پیک کے منصوبوں کے معا ہدوں سے متعلق سوا لات کر کے کریدنے کی کو شش کی جس پر وزا رت منصوبہ بندی نے انہیں پہلے تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ان کے پاس تفصیلات نہیں وزا رت توا نائی ان معا ملات کو دیکھ رہی ہے ،تفصیلات ان کے پاس ہیں لیکن اس پر بھی جب آ ئی ایم ایف حکام کو صبر نہ آ یا اور انہوں نے وقفے وقفے سے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا تو پاکستانی حکام کو کہنا پڑا کہ آ ئی ایم ایف کا ان منصوبوں سے کو ئی تعلق نہیں اور نہ پاکستان آ ئی ایم ایف اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات بتانے کا پا بندہے۔ ذرا ئع کے مطابق آ ئی ایم ایف کے وفد کو سی پیک کے تحت 28.6ارب ڈالر کے 22منصوبوں پر پیش رفت سے متعلق بتایا گیا ہے۔ وفد کو آگاہ کیا گیا ہے کہ سی پیک منصوبوں کے لیے پاکستان نے چین سے صرف 6ارب ڈالر کا قرضہ لیا ہے جو کہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کے مجموعی بوجھ کا صرف 6.3فی صد ہے۔واضح رہے کہ امریکی حکومت چین پاک اقتصادی راہداری منصوبے کی تفصیلات جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔گزشتہ روزامریکی نشریاتی ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہاہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ مختلف ملک شفاف قرضے لیں جن کا بوجھ وہ اٹھا سکیں۔ تاکہ اپنے اسٹرٹیجک اثاثوں پر اپنی خودمختاری نہ کھو دیں۔ایلس ویلز کے مطابق امریکہ اور کئی امریکی کمپنیاں بھی جاننا چاہتی ہیں کہ منصوبوں کے ٹھیکے کیسے دیئے جا رہے ہیں ۔