قسط نمبر: 232
شیخ دین محمد نے کئی مہینے اطراف پنجاب میں بزرگوں کے مزارات پر گزارے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے سرہند میں بھی کئی دن قیام کیا اور شیخ احمد سرہندی کے مزار مبارک پر کئی دن مراقبے میں رہے۔ حضرت مجدد صاحب کے سلسلے میں احکام شریعت کی پابندی پر اصرار ان کی متشرع طبیعت کو بہت بھلا لگا اور ان کا دل مجددی شیوخ کی طرف کھنچنے لگا۔ وہ اسی فکر میں تھے کہ کسی ہادی برحق کا پتہ مل جائے تو اس کے سامنے زانوئے عقیدت تہ کریں کہ انہیں شاہ غلام علی صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سرہند میں تشریف فرما ہیں۔ شاہ غلام علی صاحب کو ایک عالم حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید کے ممتاز خلفا میں شمار کرتا تھا۔ شاہ صاحب قیام تو دہلی میں فرماتے تھے، لیکن مجددی سلسلے کے ایک انتہائی نمایاں اور متبرک فرد ہونے کی وجہ سے وہ سرہند بھی اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ شیخ دین محمد نے اپنے نخچیر قلب کو حضرت شاہ صاحب کے فتراک سے باندھ لیا اور انہیں کی طرف اپنا قبلہ راست کر کے ان کے ساتھ ساتھ دہلی آگئے۔
دہلی میں شیخ دین محمد نے شاہ صاحب کے حکم کی تعمیل میں زینت المساجد کے مدرسے میں معلمی اختیار کی اور شاہ صاحب ہی کے ارشاد کے بموجب ایک غریب بیوہ سے شادی کر کے تاہل اور معاشرے کے بکار آمد فرد کی زندگی گزارنے لگے۔ اپنے شیخ کی نسبت سے وہ خود کو رفاعی مجددی کہنے اور کہلانے لگے۔ شاہ غلام علی صاحب نے دارالفنا سے کوچ فرمایا (1824) تو اس وقت تک شیخ دین محمد دنیاوی اور دینی دونوں اعتبار سے محترم ہو چکے تھے۔ شیخ نورالدین سیف اللہ رفاعی کی پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی تھی۔ شیخ دین محمد کو شاہ غلام علی صاحب نے خلیفہ تو نامزد نہ کیا لیکن ایک دن جب مزاج میں خوب بسط تھا، انہوں نے فرمایا اور شیخ دین محمد کو نہال نہال کر دیا: ’’میاں دین محمد، تم اور تمہارے پرانے شیخ ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔
شیخ دین محمد نے اپنے بیٹے مولوی محمد نظیر کو اچھی تعلیم دلوائی اور انہیں مجددی اور رفاعی دونوں سلاسل میں خود ہی بیعت کیا۔ باپ کی موت کے بعد مولوی محمد نظیر کا حلقۂ ملاقات اور بھی وسیع ہوا۔ ان میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اکبری بائی فرخ آبادی اور ان کے داماد محمد یوسف سادہ کار سے بھی رسم و راہ رکھتے تھے۔ محمد نظیر اب شادی کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور مالی حیثیت ان کی بہت مستحکم تھی۔ کیونکہ رفاعی اور مجددی دونوں سلسلوں کے عقیدت مندوں کا ان کے یہاں آنا جانا تھا۔ بعض خیرخواہ بیچ میں پڑے اور محمد یوسف سادہ کار کی بڑی بیٹی انوری خانم شریفانہ دھوم دھام سے بیاہ کر مولوی محمد نظیر کے گھر آگئیں۔ کئی سال بعد اللہ نے انہیں بیٹی عطا کی، چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ امۃ الفاطمہ نام رکھا گیا۔ بڑے نازوں میں پلی، لیکن تعلیم اور امور خانہ داری سے بھی اسے پوری طرح بہرہ مند رکھا گیا۔
نواب مرزا اپنے معمولہ پھیرے پر خالہ کے گھر میں موجود تھا۔ فاطمہ سے ہلکی ہلکی معصومانہ چھیڑ چھاڑ جاری تھی۔ بڑی خالہ جان سے بھی وہ اپنے معمولہ سوالات کر رہا تھا: ’’بڑی خالہ جان، گھر میں گھی ختم ہو گیا ہو تو لادوں، آج میرا گزر قدم شریف کی طرف ہوا تو دیکھا کہ وہاں درجنوں میواتی عمدہ قسم کا گھی لیے ہوئے بیچنے کو آئے تھے۔ آپ حکم کریں تو لپک جھپک دو سیر خالص گھی اپنے سامنے تلوا کر کپی بھروا لائوں‘‘۔
’’اے چل چخے، ہمیں ایک تو ہی ملا ہے۔ گھی سے کپڑے چیکٹ کرانے کے لیے میرے گھر میں نوکر نہیں ہیں کیا؟‘‘۔ بڑی بیگم ہنس کر بولیں۔
’’اچھا تو آج آزاد پور کی منڈی میں کابل کا سردہ اور گرمہ خوب گرا ہے۔ ابھی چلا جائوں تو ایسے پھل لائوں ہوں کہ خالو جان بھی خوش ہو جائیں گے‘‘۔
’’اللہ تجھے عقل دیوے‘‘۔ بڑی بیگم نے ویسی ہی شگفتگی سے کہا۔ ’’تیرے خالو جان سن لیویں گے کہ میں نے چھوٹی کے لاڈلے کو آزاد پور بازار کرنے کو بھیج دیا تو وہ اللہ جانے میری کیا گت کر ڈالیں گے‘‘۔
فاطمہ نے کچھ شرماتے ہوئے بہت خفیف سے تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’اللہ بھائی جان آپ کیا کیا اشقلے چھوڑتے رہتے ہیں‘‘۔ وہ ایک ادا سے دوپٹہ منہ پر رکھ کر ہنسی۔ ’’یہاں کسی شے کی کمی تو ہے نہیں…‘‘۔
’’جی بہت خوب‘‘۔ نواب مرزا نے تڑ سے جواب دیا۔ ’’لیکن میں تو ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں…‘‘۔
فاطمہ شرمائی جارہی تھی۔ اس فقرے کا جواب اس سے بن بھی نہ سکتا تھا اور وہ اس فکر میں بھی تھی کہ بھائی جان بات ختم کریں تو میں کسی طرح بات بنا کر بات کو ٹال دوں، کہ باہر سے آواز آئی: ’’بندگی سرکار، پردہ کرالیں۔ مولانا صہبائی صاحب اور ان کی بیگم تشریف لائے ہیں‘‘۔
بڑی بیگم کچھ گھبرا کر اٹھیں۔ مولوی صہبائی صاحب کی بیگم تو بہت کم کہیں آتی جاتی تھیں، آج کوئی خاص بات ہوگی۔ انہوں نے نواب مرزا سے کہا: ’’بیٹے تو جلد دیوان خانے میں مولوی صاحب کو بٹھا، ان کی خوب تعظیم کیجو۔ تیرے خالو شاہ صاحب کے یہاں گئے ہیں، آتے ہی ہوں گے۔ اتنے تو مولوی صاحب سے باتیں کر، میں ابھی بھنڈا اور پان بھیجتی ہوں۔ اور چل، تو جلد یہاں سے ہٹ کہ میں پردہ کرائوں‘‘۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post