وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ ہم نیک نیتی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ فوج اور عدلیہ حکومت کی پشت پر ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کا خرچہ ایک ارب روپے سے کم ہو کر چند لاکھ رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادارے اور کابینہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ ہوں تو معاملات میں بہتری پیدا ہونا مشکل ہے۔ لوگوں کے پاس دوائیں خریدنے کے پیسے نہیں تو وزیراعظم کس طرح شاہانہ انداز سے رہ سکتا ہے۔ عمران خان ایک نظریہ بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی تصویر کے بغیر ہم اسمبلی تک پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ عمران خان صاحب کی پوری زندگی مکمل جدوجہد کی داستان ہے۔ فواد چوہدری وقت بے وقت بولتے رہنے کے عادی ہیں۔ وہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے پہلے بھی اپنی پارٹی کے نفس ناطقہ تھے اور اب تو وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے وہ اسے اپنے فرائض منصبی میں شامل سمجھتے ہیں۔ زیادہ اور مسلسل بولنے والا اکثر توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ اسی لیے فواد چوہدری کے بیانات پر آئے دن تنقید ہوتی رہتی ہے اور بعض اوقات تو پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان خود بھی انہیں ٹوکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اپنی حکومت کے کارناموں کا پروپیگنڈا کرنا عام طور پر وزیر اطلاعات و نشریات کا بنیادی فرض تصور کیا جاتا ہے، جبکہ فی الاصل اسے ملک و قوم کا مقدمہ اپنے عوام کے بجائے اقوام عالم کے سامنے پیش کر کے وطن عزیز اور قومی مفادات کے فروغ پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا نیک نیتی سے آگے بڑھنا کس حد تک صحیح ہے یا غلط، یہ چند روز میں حکومتی کارکردگی سے خود ہی ظاہر ہو جائے گا۔ اس کے لیے قول سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ فوج اور عدلیہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں۔ دو معنی رکھتا ہے۔ پہلا یہ کہ ان کی نظر میں حکومت کو اولیت اور فوقیت حاصل ہے، جبکہ عوام کے معتمد ترین ادارے اس کے پیچھے ہیں۔ فواد چوہدری کے بیان سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے تو آئینی و قانونی طور پر غلط نہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کو اپنی گرانبار ذمے داریوں کے نبھانے کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا، کیونکہ اصل قوت نافذہ انتظامیہ یا حکومت ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ دوسرا مفہوم اگر یہ لیا جائے کہ حکومت کے ہر اچھے برے کام کے ذمے دار یہ دونوں ادارے بھی ہیں، کیونکہ وہ حکومت کی پشت پناہی کررہے ہیں، لیکن وزیر اطلاعات و نشریات جیسے اہم منصب پر فائز فواد چوہدری پر حکومت اور ریاست کا فرق واضح ہونا چاہئے۔ فوج اور عدلیہ کے ارکان کسی حکومت کے آگے پیچھے نہیں ہوتے، بلکہ وہ ریاست، اس کے آئین و قانون اور عوام کے تحفظ کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ حکومتوں کے اچھے کاموں میں تعاون کرنا اور انہیں غلط راستے پر جانے سے روکنا ٹوکنا، دونوں اداروں کے آئینی و قانونی فرائض میں شامل ہے۔
الحمد للہ کہ فوج اور عدلیہ کسی حکومت کے پیچھے نہیں، ریاست کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اس کے ثبوت و شواہد نہایت واضح اور ساری قوم کے سامنے ہیں۔ تحریک انصاف پر بے پناہ سرمایہ کاری کرنے والے جہانگیر ترین کو عدالت کی جانب سے تاحیات نااہل قرار دیا گیا تو اس فیصلے کو حکومت اور فوج سب کو تسلیم کرنا پڑا۔ اسی طرح آرمی چیف کی توثیق کے بعد عام یا فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والوں کو ریاست کے بہترین مفاد کے پیش نظر بچانے کے لیے نہ حکومت جرأت کر سکتی ہے اور نہ اعلیٰ عدلیہ کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت، عدلیہ اور فوج سب پابند ہیں کہ وہ ریاست کی پشت پر کھڑے ہوں اور ان کے درمیان آئین و قانون کے مطابق مکمل ہم آہنگی موجود ہو۔ پاکستان میں اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی کے تحت آگے بڑھتی ہیں، جبکہ اداروں کے استحکام سے ریاست اور جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔ یہ شخصیت پرستی ہی کا شاخسانہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی جیسی بڑی قومی جماعت ایک صوبے کے بھی چند علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اسی طرح صوبہ پنجاب میں سالہا سال سے حکمرانی کے مزے لوٹنے والی مسلم لیگ خود اپنے صوبے کی قیادت سے محروم ہو گئی ہے۔ بھٹو اور شریف خاندان اگر اپنی اپنی جماعتوں میں اہل اور باصلاحیت رہنمائوں کو آگے بڑھاتے اور کارکنوں کی سیاسی و تمدنی تربیت پر توجہ دیتے تو ان کا وہ حشر نہ ہوتا جو آج دنیا دیکھ رہی ہے۔ فواد چوہدری بھی عمران خان کے بت کی پوجا کرتے نظر آتے ہیں، جن کے بغیر وہ اسمبلیوں میں پہنچنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان کے نزدیک عمران خان ایک شخصیت نہیں نظریہ ہے۔ ایسا ہی ایک نظریہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کی صورت میں گزشتہ دنوں مسلم لیگ نے قوم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تھی، جو پیپلز پارٹی کی طرح نظریۂ دولت سے زیادہ کچھ بھی نہ ثابت ہو سکا۔ عمران خان کو خود اپنے اردگرد جمع ہو جانے والے خوشامدیوں اور چاپلوسوں سے بچنا چاہئے۔ تجربہ شاہد ہے کہ برے وقت میں پلٹ کر دیکھا جائے تو یہ سب غائب ہو جاتے ہیں اور ’’اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے‘‘ کی تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں وزیر اعظم ہائوس کا خرچہ ایک ارب روپے سے کم ہو کر چند لاکھ رہ گیا ہے۔ یہ چند لاکھ کتنا ہے؟ پندرہ بیس لاکھ سے ستر اسی لاکھ تک کی رقم کو بھی وہ چند لاکھ کہہ سکتے ہیں۔ عوام تو حکومت کے سطحی اقدامات کے تناظر میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ان کے ساتھ کوئی انصاف کرنے کے بجائے اپنے شاہانہ ٹھاٹ باٹ میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ قومی لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کا کوئی ٹھوس اقدام کیا ہے۔ الٹا خزانے میں خسارہ ظاہر کر کے عوام پر بجلی، گیس اور سی این جی کی قیمتیں بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔ ملک و قوم کے حق میں کوئی بہتر تبدیلی محض بیانات، دعوئوں اور وعدوں سے نہیں آتی، اس کے لیے حکمران طبقے کو ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرنے اور اپنی نیک نیتی کو اہلیت اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭
Prev Post