مہذب ہونے کا ثبوت
لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
جب کبھی پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی ہوتی ہے تو جیتنے والی جماعت خوشی کے شادیانے (ڈھول، فائرنگ، آتشبازی) اس طرح بجاتی ہے کہ جیسے وہ تاحیات اقتدار میں رہے گی۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں … ہماری قوم بے حد جذباتی اور جاہل ہے۔ وحشی اور بدتمیز بھی۔ ہمارا اخلاقی زوال اور تہذیبی انحطاط سو پچاس برس کی بات نہیں۔ کئی صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔
11 ستمبر کو لندن میں بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہو گیا۔ میڈیا پر ہر طرف یہی خبر تھی۔ مگر اس دفعہ خوشگوار حیرت ہوئی۔ پوری قوم نے بڑی مہذب ہونے کا ثبوت دیا۔ وزیراعظم عمران خان سے لے کر سابق حکمرانوں، دانشوروں، میڈیا کے لوگوں اور ہر اہم آدمی نے اس موقع پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ شریف فیملی کو ہر ممکن سہولت دی جائے گی۔ راقم نے اس دکھ کو شدت سے محسوس کیا۔ جس سے نواز شریف کو قید خانے میں گزرنا پڑ رہا ہے۔ نواز شریف کی زندگی میں دکھ اور غم کی ایسی گھڑی کبھی نہیں آئی ہو گی… مجھے تو اس واقعے میں ہر طرف عبرت نظر آرہی تھی۔
نواز شریف فیملی نے بیگم کلثوم نواز کے علاج کے لئے لندن کا غلط انتخاب کیا۔ ڈاکٹرز اور پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی علاج کی سہولتیں موجود ہیں اور لندن سے کسی حال میں کم نہیں۔ اگر بیگم کلثوم نواز لاہور یا اسلام آباد کے کسی اسپتال میں ہوتیں تو عین ممکن ہے نواز شریف اور مریم نواز ان کے سرہانے بیٹھے ہوتے۔ ایک تو یہی غم کیا کم ہے کہ آخری وقت نواز شریف ان کے پاس نہیں تھے۔ دوسرے ان کے بیٹے حسن اور حسین تدفین میں شریک نہ ہوسکے۔ عدالت ظالم نہیں کہ انہیں مفرور قرار دے رکھا ہے… سب لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
پاکستانی قوم نے اپنی تمام اخلاقی کمزوریوں کے باوجود کئی باتوں پر بے مثال یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک تو بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے وقت قوم کے ہر چھوٹے بڑے نے اظہار غم کیا۔ دوسرے ڈیم بنانے کے مسئلے پر پوری قوم ایک ہو گئی ہے۔ ہر فرد و بشر اور ہر طبقے کی طرف سے چندہ چلا آ رہا ہے۔ آنے والے وقت میں پانی کی نایابی کے خوف سے پوری قوم متحد ہو گئی ہے۔ راقم کا ہمیشہ سے یہی خیال ہے کہ اکیس کروڑ عوام کو اکیس ہزار اَنعام (جانوروں) نے یرغمال بنا رکھا ہے … پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں۔ طاقتور طبقات کی لوٹ مار ہے۔ پاکستان کے کئی ماہرین کے مطابق روزانہ دس بارہ ارب روپے کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ پاکستان کے چیف جسٹس نے کہا: موٹر سائیکل سے سفر کا آغاز کرنے والے آج دبئی میں اربوں کھربوں کی جائیداد کے مالک بن گئے۔ مجھے فوراً اسحق ڈار کا خیال آیا۔ اسحق ڈار نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے اربوں ڈالر جمع کر لئے۔ لیکن کروڑوں غریب پاکستانی اپنے حق سے محروم ہو گئے۔ آدھے پاکستانیوں کو رہنے کیلئے گھر نصیب نہیں ہے۔ جس شخص کے پاس رہنے کیلئے گھر نہ ہو، اس کی بدنصیبی کا حال بیان کرنا مشکل ہے۔
مرزا غالب کا ایک شعر ہے۔ ہو مرنے پر منحصر جس کی امید۔ ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے۔
بے گھر شخص میں عزت نفس ہوتی ہے نہ جینے کی امنگ۔ نہ تحفظ کا احساس۔ غریبوں کو رہائش فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسحق ڈار کو پاکستان واپس لا کر عمر قید کی سزا دی جائے اور ان کی ساری پراپرٹی ضبط کی جائے اور اس دولت سے غریبوں کیلئے پانچ چھ مرلے کے پلاٹ بنا کر تقسیم کئے جائیں۔ پاکستان میں سینکڑوں اسحق ڈار ہیں۔ اگر ان سب کی دولت ضبط کر کے محروم عوام کی داد رسی کی جائے تو ان کے بیسیوں مسائل حل ہو جائیں۔ کسی دوسرے اسحق ڈار کی دولت فروغ تعلیم پر خرچ کی جائے۔ اسکولوں کی عمارات کو کھنڈرات کے بجائے خوبصورت بلڈنگ، بڑے بڑے لان، بڑے بڑے کھیل کے میدان، لائبریری، لیبارٹری، اچھے اساتذہ کی ٹریننگ، لائق طلبا کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انعام و اکرام سے نوازا جائے۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں ہزاروں مخیر حضرات موجود ہیں، جو غریبوں کی بہت مدد کرتے ہیں۔ ہر شہر میں مفت دستر خوان سجھا دیئے ہیں۔ مستحق لوگوں کے گھروں میں راشن لے جایا جاتا ہے۔ مفت اسکول اور اسپتال قائم ہیں اور بھی طرح طرح سے مدد کی جاتی ہے۔ اس سے غربت کم نہیں ہوتی۔ چھپ جاتی ہے۔
ضرورت ہے پاکستان کے تمام نوجوان لڑکوں کو ٹیکنیکل اور لڑکیوں کو ووکیشنل ٹریننگ دی جائے۔ اس سے غربت میں حقیقی کمی آ سکتی ہے۔ جاگیرداری کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ چھوٹے چھوٹے ڈیری فارم، پولٹری فارم، فش فارم بنانے میں لوگوں کی مدد کی جائے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی صنعتی اشیاء کا معیار بلند کیا جائے، تاکہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہو۔ غربت کم کرنا اہم ترین مسئلہ ہے۔
٭٭٭٭٭