’’نقیب اللہ‘‘ صرف ایک نام نہیں ہے۔ نقیب اللہ ایک عنوان بھی ہے۔ ایک ادھورے افسانے کا عنوان۔ وہ ادھورا افسانہ جو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہتا ہے۔ وہ ادھورا افسانہ جو قانون کی پرپیچ اور بھول بھلیوں سے بھری ہوئی گلیوں میں انصاف کی طرف سے جاتا ہوا راستہ تلاش کر رہا ہے۔ یہ کوئی میز گیم نہیں۔ یہ ایک مقدمہ ہے۔ ایک مقتول بیٹے کے اس مظلوم والد کا جس کو انگریزی تو کیا اردو بھی سمجھ نہیں آتی۔ اس دکھی والد کا بیٹا اپنے دل کی دور دور تک پھیلی ہوئی دنیا کا ہیرو تھا۔ وہ غریب تھا، مگر خوبصورت تھا۔ اس کے پاس شوبز کی تربیت نہ تھی۔ اس کے پاس رنگ و رونق کی اس دنیا میں داخل ہونے کے کانٹیکٹس نہیں تھے۔ مگر اس کے دل میں شوق تھا۔ اس میں جاذب نظر بننے کی فطری صلاحیت تھی۔ وہ پوری زندگی کسی ریمپ پر نہیں چلا۔ مگر وہ جب بھی وزیرستان کے کھلے اور دھلے آسمان تلے خٹک ناچ ناچتا تو بادل راہ چلتے مسافروں کے مانند کچھ دیر ٹھہر جاتے۔ وہ جب قدیم پہاڑوں سے آتی ہوئی ہواؤں میں اپنے ہاتھ لہراتا تو درختوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بہت خوش ہوتے۔ اس کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ مگر پھر بھی فیس بک پر اس کے ہزاروں چاہنے والے تھے۔ اس کو فالوو کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن مسلسل بڑھ رہی تھی۔ مگر اس کے ذہن میں ماڈل بننے کی حسرت نہیں تھی۔ وہ اپنی دنیا کا ماڈل تھا۔ وہ اپنا فیورٹ تھا۔ مگر وہ سب کچھ اس کا شوق تھا۔ اس نے اس شوق کو پیشہ بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ وہ ایک محنت کش والد کا محنت کش بیٹا تھا۔ اس کو کراچی میں ایک پردیسی پٹھان کی طرح پیچھے چھوڑے ہوئے خاندان کا بار بار خیال آتا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بہت اعلیٰ تعلیم دلوائے۔ وہ اپنے بچوں کے سر پر شفقت کا سنہرا بادل بننا چاہتا تھا۔ وہ اپنے والد کو عزت کے ساتھ ساتھ وہ سکھ دینے کی خواہش رکھتا تھا، جو سکھ ہر والد کا حق ہوتا ہے۔
زندگی اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ رواں دواں تھی۔ سہراب گوٹھ میں سپنے بننے والا وہ نوجوان اچانک اٹھایا گیا۔ اس کو وردی پہننے والے مجرموں نے اغوا کیا تھا۔ گرفتاری نما اغوا یا اغوا نما گرفتاری کے بعد اس پر بدترین تشدد کیا گیا۔ پھر ایک وردی والے نے اس کے کان میں کہا کہ پیسوں کا بندوبست کرو، میں تمہیں یہاں سے نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ نوجوان جس کا والد کے پاس کرائے کے پیسے نہ ہوں، وہ کہاں سے دے سکتا ہے لاکھوں روپیوں کا تاوان؟ اور کیوں دے؟ کیا کیا ہے اس نے؟ کیا جرم ہے اس کا؟ ایسے سوالات نہ صرف اس کے ذہن بلکہ اس کی زبان پر بھی آتے رہے۔ پھر کیا ہوا؟ پھر وہی ہوا جو کراچی کے بدنام پولیس افسر کے ٹارچر کیمپ میں ہوتا تھا۔ جس کے پاس رشوت دینے کے پیسے نہیں ہوتے تھے، اس کو دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں گولیوں سے بھون لیا جاتا تھا۔ پھر اس بے گناہ کے نام پر وہ پولیس افسر انعام حاصل کرتا۔ اس پولیس افسر نے ہمیشہ لاشوں کو سیڑھیاں بن کر ترقی کا سفر کیا۔ وہ کلرک سے ایس ایس پی بن گیا۔ اس نے غربت دیکھی تھی۔ بدترین غربت، مگر اب اس کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ اس نے کافی عرصے سے حساب رکھنا چھوڑ دیا تھا۔ مگر اس کی اصل دولت وہ افراد تھے، جو سیاسی، سرکاری اور انتظامی طاقت کے مالک تھے۔ ان کی وجہ سے وہ نہ صرف ہمیشہ بچ جاتا، بلکہ بہت اوپر پہنچ جاتا۔
اس پولیس افسر نے نقیب اللہ کی لاش کو بھی سیڑھی بنا کر استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر نقیب اللہ اس کے لیے دلدل بن گیا۔ اس دلدل میں وہ مجرم صفت پولیس افسر پھنستا چلا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وزیرستان کا گمنام کردار کراچی جیسے بے پروا شہر میں امن اور انصاف کی علامت بن گیا۔ وہ کسی خان اور سردار کا صاحب زادہ نہیں تھا۔ وہ محسود تھا، مگر غریب تھا۔ اس غریب کے لیے پوری دنیا میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی۔ نقیب اللہ کی تصاویر جب سوشل میڈیا پر وائرل بن گئیں، تب اس پولیس افسر کے خلاف بغاوت کا طوفان اٹھنا شروع ہوا۔ اس طوفان میں اتنی شدت تھی کہ نقیب اللہ کے قاتل کو پناہ دینے والے بھی ڈر گئے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ اس پولیس افسر کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے روپوش ہونا پڑا۔ نقیب اللہ کے لیے انصاف کی صدائیں سہراب گوٹھ تک محدود نہیں رہیں۔ نقیب اللہ قتل کیس میں انصاف کے لیے جرگے مشعلوں کی طرح جلنے لگے۔ جب نقیب اللہ کے لیے انصاف مانگنے والوں کا غصہ بپھرے سمندر کا روپ اختیار کر گیا، تب اس مفرور پولیس افسر کو سپریم کورٹ میں حاضر ہونا پڑا۔ وہ دن میڈیا کے لیے ناقابل فراموش تھا۔
کرائم کی بیٹ کرنے والے رپورٹرز اس کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ کیا یہ وہی راؤ انوار ہے!؟ جس نے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا اور جس نے انصاف کی کبھی پروا نہ کی، مگر وہ اس بار بہت گھبرایا ہوا تھا۔ وہ قدم قدم پر اپنے آپ کو پولیس کے گھیرے میں غیر محفوظ تصور کر رہا تھا۔ کیوں کہ اس نے پہلے کسی قتل پر اتنا بڑا ردعمل نہ دیکھا تھا۔ نقیب اللہ قتل کیس نے نہ صرف حکومت کو ہلا ڈالا، بلکہ اس مقدمے نے ریاست کے اعلیٰ اداروں کے سربراہان کو مجبور کر دیا کہ وہ نقیب اللہ کو اپنا بیٹا قرار دیں۔ نقیب اللہ کے لیے دعائے صرف پٹھانوں میں محبت کے احساسات نہیں تھے، بلکہ اس کے لیے ہر زبان بولنے والے شخص کے دل میں احساسات کا گرم چشمہ بہہ نکلا تھا۔ اس وقت ہمیں یقین تھا کہ احساسات کا یہ چشمہ ہمیشہ رواں دواں رہے گا۔ وہ خوبرو نوجوان جو بغیر کسی جرم کے قتل کیا گیا۔ اس کا خون کراچی کو امن اور انصاف فراہم کرے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب نہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا جوش سے ابل رہا تھا اور سوشل میڈیا جو سمندر میں اٹھے ہوئے طوفان کی طرح اور پہاڑ کی چوٹی پر لگی ہوئی آگ کے مانند ہر سمت شدت سے بڑھ رہا تھا۔ ہمیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ نقیب اللہ قتل کیس میں ملوث وہ پولیس افسر کبھی نہیں بچے گا، جس نے کراچی شہر کو اپنے مفادات کے مقتل میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے سینئر کرائم رپورٹر بھی اس وقت یہ کہہ رہے تھے کہ اب اس پولیس افسر کا بچنا محال ہے، جس نے جعلی پولیس مقابلے کا سیٹ بنوایا تھا اور اپنی موجودگی میں نقیب اللہ کو گولیوں سے چھلنی کروایا تھا۔ اس وقت سب کو یقین تھا کہ اب نقیب اللہ کو انصاف ملے گا۔ کیوں کہ ہر گواہی مذکورہ پولیس افسر کے خلاف جا رہی تھی۔ اس کے خلاف سارے ثبوت خود بہ خود منظرعام پر آ رہے تھے۔ وہ ایک امید کا دور تھا۔ وہ روشنی کا دور تھا۔ وہ مثبت باتوں اور مقدس احساسات کا دور تھا۔ ہم سب نے سوچا تھا کہ یہ وقت ابھی چلتا رہے گا۔ یہ رکنے والا وقت نہیں۔
وقت کے اس دھارے پر نقیب اللہ قتل کیس کا سچا افسانہ محو سفر تھا۔ پھر ایک موڑ آیا۔ اس موڑ سے کہانی لڑکھڑائی۔ جب پولیس افسر کو جیل بھیجنے کے بجائے ایئرکنڈیشنڈ مکان میں ٹھہرایا گیا اور اس مکان کو سب جیل کا درجہ دیا گیا، جس مکان میں صرف ایک دن ایئرکنڈیشنڈ خراب ہوا تھا تو اگلے روز پیشی پر مذکورہ پولیس افسر نے عدالت میں شور مچایا کہ اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ نقیب اللہ کے قاتل کو آرام دہ مکان میں ٹھہرانے پر احتجاج ہوا تو سیکورٹی ایشوز کا تذکرہ کیا گیا۔ جس ملک میں سابق وزیر اعظم اپنی بیٹی کے ساتھ جیل میں غیر محفوظ نہیں ہے، اس ملک میں قتل کے کیس میں ملوث پولیس افسر کے لیے جیل محفوظ مقام نہیں تھا!!!!
بس یہاں سے سچ اور حق کا یہ افسانہ اپنے منطقی انجام سے دور ہٹتا گیا۔ انصاف کی وہ امید جو منفی مثالوں کے سیاہ آسمان پر بجلی بن کر چمکی تھی، وہ کہیں دور پہاڑوں کے پیچھے ایک بہت بڑی آواز کے ساتھ گر گئی۔ ملک کے معصوم انسانوں کے دل بیٹھ گئے۔ جب انہوں نے ایک بار پھر مجرم صفت پولیس افسر کو بھرپور اعتماد کے ساتھ دیکھا۔ جس طرح اس پر رعایتوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ سب کچھ اس ملک کے امید پرست لوگوں کے دل پر بہت گراں گزرا۔ کیا یہ انصاف تھا؟ یہ سب کچھ انصاف کی توہین تھی۔ انصاف کی عدالت کی توہین سے بڑا جرم ہوتا ہے۔ نقیب اللہ کے قاتل کو رعایت دینا انصاف کے ساتھ زیادتی ہے۔ وہ زیادتی ہوتی رہی۔ وہ زیادتی ہو رہی ہے۔ اب مایوس دل اور اداس دماغ والے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ فون پر کبھی دو چار منٹ اور کبھی دس پندرہ منٹ باتیں ہوتی ہیں۔ پھر احتجاج کی آگ جلانے اور پھر نقیب قتل کیس میں انصاف کے لیے جرگہ بلانے کی باتیں ہوتی ہیں، مگر ان باتوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اس اندھیرے میں چراغ جلانے کی باتیں ہوتی ہیں، مگر چراغ نہیں جلتا۔ ظلم کے قلعے کو گرانے کے لیے نعرے لگتے ہیں، مگر ظلم کا قلعہ نہیں گرتا۔ وقت مفرور ملزم کی طرح مایوس لوگوں کی بھیڑ میں خاموش کھڑا ہے۔ یہ سوال اب بھی ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ کیا نقیب اللہ کو انصاف ملے گا؟ اس نوجوان کو انصاف ملے گا، جو صرف ایک نام نہ تھا۔ وہ ایک عنوان بھی تھا۔ ایک ایسے افسانے کا عنوان، جس کی ابتدا میں امید اور محبت تھی۔ پھر وہ افسانہ المیاتی شکل اختیار کر گیا۔ وہ المیہ بھی یونانی تھیٹر کی طرح اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کے لیے چل پڑا تھا، مگر اس کی راہوں میں رکاوٹیں بچھائی گئیں۔ اب وہ افسانہ بھول بھلیوں جیسی قانونی گلیوں میں انصاف کا دروازہ تلاش کر رہا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post