’’ محبت و برداشت ‘‘
ڈاکٹر صابر حسین
Seenerio بہت تیزی سے بدل رہا ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ بدلا جا رہا ہے۔ ایک طرف یورپ میں آئے دن کوئی واقعہ ایسا کروایا جا رہا ہے، جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں خبریں آنے کا سامان پیدا ہو اور دوسری طرف تمام مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر مجبور کردیا گیا ہے۔ لکڑیوں کا گٹھر توڑنے کی کوشش کے بجائے، ایک ایک کرکے لکڑی توڑی جا رہی ہے اور آگ بھڑکائی جا رہی ہے۔
مسلمان ملکوں اور قوموں کی معیشت اور معاشرت دونوں پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اور ساتھ ساتھ مسلمان نوجوانوں اور بچوں کے دلوں اور ذہنوں کو بھی بدلنے کی مہم جاری ہے۔ تھوک کے حساب سے غدار خریدے جا رہے ہیں۔ ہم لوگ اپنا ایمان فروخت کرکے دنیا کا سکون آرام ڈھونڈ رہے ہیں۔ سچ کہنے، سچ سننے اور سچ کو برداشت کرنے کی اہلیت اور طاقت اس خرید وفروخت سے سلب ہوچکی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ یہود و ہنود کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ثابت ہوئے۔ پھر بھی ہم لوگ جوق در جوق ان تہذیبوں اور نظریوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے جا رہے ہیں جوکسی بھی انسان اور قوم کی روح اور شخصیت کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم نفع میں ہیں۔ ہماری دولت بڑھ رہی ہے۔ ہماری شہرت کو چار چاند لگ رہے ہیں۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان تہذیبوں اور نظریوں کا سیم ہماری بنیادوں کو ختم کرچکا ہے۔
ہو ا میں ہچکولے کھاتی دیواروں کی طرح ہماری اساس کسی بھی وقت زمین زد ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم خبروں، تبصروں، تصویروں میں یہ دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یہ خون آلود چہرے، یہ دھماکے، یہ تشدد، یہ ماتم ہمارے ملک میں نہیں۔ یہ سب افغانستان، شام، عراق، لیبیا، کشمیر اور برما میں ہو رہا ہے۔ ہمیں کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہم نے تو اپنا سودا کرلیا ہے۔ خود کو بیچ دیا ہے۔ ہم تو ہاتھ باندھ کر ان کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوگئے ہیں، جن کی ایما پر دنیا بھر کے مسلمانوں پر آزادی اور زندگی کے راستے بند ہو رہے ہیں۔ ہم تو اُن کے رنگ میں رنگ چکے ہیں۔ ہم تو اب صرف نام کے مسلمان ہیں۔ ہمیں کسی نے تھوڑی کچھ کہنا۔ حاکم وقت نے ہماری جان بخشی کا حکم دے دیا ہے۔ ہم اور ہماری نسل کو کچھ نہیں ہونا۔ تباہی، بربادی، موت تو اُن مسلمانوں کیلئے ہے، جو خواہ مخواہ کے اسلامی جہاد کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
اسی سوچ نے ہمارے اندر منافقت کو جنم دیا ہے اور پھر ہماری فطری جذباتیت نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری کردیا ہے۔ ہم اور کچھ نہیں تو کم از کم کچھ دیر کیلئے اپنی سوچ اور اپنے اعمال پر ہی ایک نظر ڈال لیں کہ کہاں کہاں بگاڑ ہے اور بگاڑ کی بنیاد کیا ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے کیلئے تھوڑا سا وقت نکال لیں تو کئی سوال ذہن میں اٹھتے ہیں۔
پہلا سوال یہ کہ کیا ہم اب واقعی نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت کو شاید ہی تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا کلمہ یاد ہو۔ کبھی کبھی کی نماز اور زیادہ سے زیادہ جمعہ کی نماز۔ پھر رمضان میں روزوں اور سحری و افطاری کا اہتمام اور عیدین کی نمازیں۔ پھر مہنگے ترین جانوروں کی قربانی۔ ان کے علاوہ اور کیا ہمارے اندر سچی و حقیقی اسلامی مذہب کی باتیں باقی ہوں گی؟ شاید کچھ بھی نہیں۔ شاید ایک آدھ یا دو چار اور ان سے بڑھ کر اگر کوئی اپنی شخصیت کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کو کوشش کرتا ہے تو اُسے ’’بنیاد پرست‘‘، ’’مولوی‘‘، ’’دقیانوسی‘‘ اور ’’شدت پسند‘‘ جیسے القابات سے نوازنا شروع کردیا جاتا ہے۔
دوسرا سوال یہ کہ ہم میں سے وہ لوگ جو عبادات کی حد تک تو خود کو پابند اسلام کرلیتے ہیں، لیکن معاملات میں اور تعلقات میں اپنے خاندانی رواج اور رسومات اور توہمات اور اپنے ذاتی مفادات و نظریات کی مشق میں مصروف رہتے ہیں۔ کیا وہ بھی نام کے مسلمان نہیں؟
تیسرا سوال یہ کہ ترقی پسند، آزاد خیال، جدیدیت اور مغربی طرزِ فکر و زندگی کے تحت زندگی بسر کرنے والے کیا اسلام کے درجے سے خارج کردئیے جائیں۔ یقینا نہیں۔
چوتھا سوال، اعتدال پسند اسلام کسے کہتے ہیں؟ پانچواں سوال، اسلام درحقیقت ہے کیا؟ اور چھٹا سوال، بحیثیت مسلمان ہمارے کیا عقائد کیا نظریات، کیا افکار، کیا اعمال ہونے چاہئیں۔ جو واقعتاً مذہب اسلام کی اصل روح کی عکاسی کرتے ہوں۔
سوال در سوال اٹھتے ہیں اور اٹھ سکتے ہیں۔ اگر ہم موجودہ حالت پر نگاہ ڈالیں اور سوچنے کیلئے وقت نکالیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اغیار کی یلغار نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ ہم سے ہمارا وقت، ہماری تنہائی اور ہماری سوچ اور سوچنے کی عادت بھی چھین لی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اپنے آپ اور اپنی اور سب چیزوں کی طرح ہم نے اپنی سوچ بھی گروی رکھ دی ہے۔
معاش، مہنگائی اور گھر کے مسائل نمٹانے کے بعد جو وقت بچتا ہے، وہ ہم نے ذہنی تفریح کی نذر کرنا شروع کر دیا ہے۔ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت ہمارے وقت اور ہماری توجہ پر تیسری آنکھ کا قبضہ ہو رہا ہے اور ہم اطمینان و آرام سے خود کو گروی بھی رکھ رہے ہیں اور غلام بھی بنوا رہے ہیں۔
ہر نیا دن ایک نئی قیامت لارہا ہے۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ ہر طرح ہر طریقے سے مسلمانوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ جان، مال، خاندان، گھر، وطن، عزت، ہر حوالے سے ہر غیر مسلم اپنی اپنی جگہ اس کام میں مصروف ہے اور ہم سب اُن سب کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ خود اپنی بنیادیں کھود رہے ہیں۔ ہر حادثے، ہر سانحے، ہر واقعے کو کسی فرضی فلم کا حصہ قرار دیکر چین کی نیند سو رہے ہیں۔ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ ایسا کب تک ہوتے رہنا چاہئے۔ خود غرضی، بے حسی اور بے حیائی کے اس عہد کے دن اور کتنے باقی ہیں۔
کیا کبھی آپ نے، ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنی ذات میں، اپنے ذاتی مفادات میں اتنے کیوں گم ہو چکے ہیں کہ ہمارا احساس تو مر چکا ہے اور اس کی جگہ حساسیت نے لے لی ہے۔ ہوا بھی ہمارے بالوں کو بکھیر دے تو ہمارے لبوں پر گالیاں آجاتی ہیں۔ لیکن پوری دنیا میں بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام جاری ہے اور ہمارے کاموں اور کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بے حسی اور خود غرضی کا یہ عالم کوئی تیس چالیس برس پہلے تو نہیں تھا۔
کئی دہائیوں کی مستقل برین واشنگ کے بعد اس سوچ کے بیچ، کڑوے کسیلے کیکر کے کانٹے دار جھاڑیوں کی شکل میں ہماری شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں اور اب ہم ہر ایک کو کاٹ کھانے کیلئے دوڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو لوٹ رہے ہیں۔ اپنے اصل دشمن کو اپنا دوست سمجھ رہے ہیں اور اپنوں کو دشمن جان کر ان سے دوریاں اختیار کررہے ہیں۔
جب تک ازسرِ نو ہم اپنے ایمان کی تجدید نہیں کریں گے اور اپنے دِلوں کو اسلام کی اصل روح سے روشن نہیں کریں گے۔ تب تک ہم اِسی طرح ہر جگہ ہر محاذ پر ٹوٹتے بکھرتے مرتے رہیں گے اور کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ اسلام کی اصل روح کو جاننا، ماننا اور اپنانا، یونان کا کوئی دقیق فلسفہ نہیں ہے کہ اُسے سمجھنے کیلئے ہمیں 20 – 30برس کی ریاضت و مشقت کرنی پڑے۔ گنتی کے چند موٹے موٹے نکات ہی اگر ہم اپنی عملی زندگی کا حصہ بنالیں تو ہمیں نہ صرف اپنے اور پرائے کی پہچان بھی بہ آسانی ہو جائے گی اور ہم دنیا میں از سرِ نو عزت سے سر اٹھا کر جی بھی سکیں گے اور لوگوں کو جیو اور جینے دو کے حقیقی معنوں سے بھی روشناس کر سکیں گے۔
اسلام کی اصل روح کو جاننے کیلئے ہمیں دس ہزار کتابیں بھی نہیں پڑھنی۔ کسی مدرسے میں بھی داخل نہیں ہونا۔ اس حوالے سے کسی مولوی یا مفتی سے بھی اپنے اسلام یافتہ ہونے کا فتویٰ یا سند نہیں لینی۔ اگر ہم اپنے معاملات اور معمولات میں محض محبت اور برداشت کے عناصر پیدا کرلیتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ ہم نے راست راستے پر قدم رکھ دیا ہے۔ اُس راستے پر چلنا شروع کردیا ہے جو ہمیں اسلام کی روح کے دروازے تک لے جانے میں ہمارا ساتھ دیتا ہے۔ محض اتنا بھی کافی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ صحیح اور غلط کا فرق از خود ہمیں سمجھ میں آنے لگے گا۔
محبت اور برداشت کو اپنے اندر جگہ دینا زیادہ مشکل نہیں۔ ہم اگر صرف اپنے وجود کے صحیح اور غلط کو برداشت کر کے اپنے اندر کے انسان سے محبت کرنا شروع کردیں تو ہمیں اپنے اردگرد محبت اور برداشت کو پھیلانے میں زیادہ دقّت پیش نہیں آئے گی۔
٭٭٭٭٭