شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ اپنے وعظ میں واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دکاندار تھا، جو بظاہر بہت ہی اہتمام سے باجماعت نماز میں شرکت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی وجہ سے اس سے نماز باجماعت فوت ہوگئی۔جس پر وہ رونے دھونے لگا۔ اس شخص کا بہت زیادہ رونا دھونا اور آہ وزاری دیکھ کر لوگ اس کے باجماعت نماز پڑھنے پر عش عش کرنے لگے کہ کیسا نیک بخت اور جماعت سے نماز پڑھنے کا شوقین پرہیزگار مسلمان ہے کہ ایک ہی جماعت فوت ہونے پر کس قدر پریشان و نادم ہے۔
اس دکاندار نے جب لوگوں کی باتیں سنیں تو کہنے لگا مجھے جماعت کے فوت ہونے سے اتنا افسوس نہیں، بلکہ ایک اور مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ ایک جماعت اور دوسری نماز باجماعت کے درمیان میں جتنا کاروبار کرتا، نقد ہوتا یا قرض، کاروبار کے وقت تو مجھے حساب کتاب کا وقت نہیں ملتا، جب امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوتا تو وہ سارا جمع و خرچ میں اسی دوران دل ہی دل میں کرلیتا۔ نہ مجھے کچھ پڑھنے کی ضرورت تھی، نہ تکبیر کی، تمام ذمہ داری امام
کی تھی۔ میں خود کار طریقہ سے اٹھک بیٹھک کرتا۔ جماعت فوت ہونے پر اب جب اکیلے ہی نماز پڑھوں گا، سب کچھ مجھے خود ہی کرنا ہوگا۔ میرے حساب و کتاب کا وقت مجھ سے ضائع ہوا۔ اب مجھے اس کے لئے مستقل وقت مجھ سے ضائع ہوا۔ اب مجھے اس کے لئے مستقل وقت دینا ہوگا۔ اندازہ کریں جب نماز جیسا اہم لمحہ دکانداری کے لئے مختص ہو جائے، اس میں بھی وہی ناپ تول، پیمائش اور دنیاداری کا تصور ہو تو کیسے رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے نسخہ اکسیر سے ہمارے گناہوں میںکمی آئے گی۔ یہ سب کارستانی شیطان کی ہوتی ہے، جس نے مسلمان کے راہ راست پر چلنے اور اس کی عبادات میں اصل روح اخلاص و تقویٰ، خشوع وخضوع ختم کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ ایسے موقع پر مسلمان کی آزمائش ہے کہ وہ شیطان کے بتائے ہوئے فضول اور لاحاصل تصورات کاشکار ہو کر اپنی عبادت کو جسد بلا روح بنانے میں اس کی اطاعت کرتا ہے، یا رب کائنات کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق عبادت ادا کرکے اپنے لئے نجات کا ذریعہ بناتا ہے۔ شیطان تو کسی موقع پر بھی مسلمان کو راہ راست سے روکنے سے تھکتا نہیں۔ وہ اپنا ہر حربہ جو اس کے بس میں ہو، استعمال کرتا ہے۔ (گلدستہ واقعات)
٭٭٭٭٭
Next Post