برطانوی انجینئر کا قبول اسلام

0

ضیاء الرحمٰن چترالی
میں نے نیوکاسل میں کتابوں کی ایک دکان ’’بیت الحکمۃ‘‘ کے نام سے کھول لی۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’بیت الحکمۃ کا نام یہاں کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گا، اس لیے اس کا نام ’’ہاؤس آف وزڈم‘‘ رکھا جائے مگر انہوں نے میری بات نہ مانی اور میں یہ دکان کچھ عرصہ کرتا رہا۔ پھر میں نے یہ سوچ کر نیوکاسل چھوڑ دیا کہ یہاں مسلمان کم ہیں اور مسلمانوں والا ماحول نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں سمیت بلیک برن چلا گیا اس لیے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، بہت مسجدیں و مدرسے ہیں اور اسلامی ماحول موجود ہے، اس سے بچوں کی تعلیم بھی اچھی ہوگی۔ مگر یہ تجربہ بہت تلخ ثابت ہوا۔ میرا خیال تھا کہ دینی معلومات میں اضافہ ہوگا، ماحول اور تربیت کا فائدہ ہوگا، مگر لوگوں نے مجھے چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھا دیا۔ مختلف گروہ تھے، ہر ایک مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا، ایک کہتا کہ نماز میں پاؤں یوں رکھو، دوسرا کہتا نہیں، بلکہ اس طرح رکھو۔ ایک کہتا ہاتھ اس جگہ باندھو، دوسرا کہتا کہ یہاں نہیں بلکہ یہاں باندھو۔ ایک کہتا کہ شہادت کی انگلی ایک بار اٹھاؤ، دوسرا کہتا کہ نہیں بار بار اٹھاتے رہو۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ میں اسی کے کہنے پر چلوں، کسی دوسرے کی بات مانتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ ہر شخص اپنی بات کی دلیل میں نبی کریمؐ کی کوئی نہ کوئی حدیث سنا دیتا۔ حدیثوں میں اس قدر تضاد دیکھ کر مجھے ان سے نفرت ہونے لگی۔ میں لوگوں سے کہتا کہ مجھے قرآن سے سمجھاؤ، وہ کہتے کہ قرآن کریم اس وقت تک تم نہیں سمجھ سکتے جب تک حدیث نہ پڑھو اور حدیث پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ عربی سیکھو اور کئی سال مدرسے میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کرو۔ مجھے سخت پریشانی ہونے لگی۔مورس نے بتایا کہ میرے مزاج میں تجسس تھا اور میں سوالات بہت کرتا تھا، میرے سوالات کی کثرت دیکھ کر وہ لوگ مجھے گمراہ اور کافر کہنے لگے۔ ہر گروہ مجھے اپنی کتابیں دیتا اور حدیثیں سناتا، مجھے ان میں واضح تضاد دکھائی دیتا۔ چنانچہ سخت پریشانی کی حالت میں بلیک برن کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور میں نے طے کر لیا کہ اب ایسی جگہ جا کر رہوں گا جہاں مسلمانوں کی آبادی نہ ہو، اس طرح میں اسکاٹ لینڈ کے اس علاقے میں آکر آباد ہوگیا۔مورس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ کسی مسلمان کی دعوت پر مسلمان نہیں ہوا اور نہ ہی کسی مسلمان کو دیکھ کر اور اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہوا ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف قرآن کریم کے مطالعہ سے مسلمان ہوا ہے۔ بلکہ وہ دوسرے جن نومسلموں کو جانتا ہے، ان میں سے کوئی بھی کسی مسلمان کی دعوت پر یا اس سے متاثر ہو کر مسلمان نہیں ہوا، سب کے سب قرآن کریم پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ البتہ مسلمان ہونے کے بعد مسلمانوں نے ان نومسلموں کو الجھایا ضرور ہے، وہ انہیں پکا مسلمان بنانے اور اسلام کی بنیادی باتوں کی تعلیم دینے کے بجائے پہلے حنفی، شافعی، دیوبندی، بریلوی، تبلیغی اور شیعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے وہ سخت پریشان ہو جاتا ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ کسی شخص کے مسلمان ہونے پر کوئی مسلمان اس سے یہ تو نہیں پوچھتا کہ تمہیں مسلمان ہونے کے بعد کیا پریشانی لاحق ہوئی ہے، اپنے خاندان کے ساتھ تمہارے تعلقات کا کیا حال ہے، تمہیں کوئی مالی پریشانی تو نہیں ہے، کسی معاشرتی الجھن سے تو تم دوچار نہیں ہوتے ہو اور تمہیں کسی قسم کی مدد کی ضرورت تو نہیں ہے؟ نو مسلم سے یہ باتیں کوئی نہیں پوچھتا، البتہ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کے فرقے میں شامل ہو جائے، کسی دوسرے فرقے کی بات نہ سنے اور کسی اور کی مسجد میں نہ جائے۔ مجھے اس کا تلخ تجربہ ہوا ہے، اس لیے میں نے سب کو چھوڑ دیا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More