سید ارتضی علی کرمانی
جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی صاحب قبولیت حاصل کرتے ہیں تو اپنوں اور بیگانوں کی جہاں ہمدردیاں حاصل ہوتی ہیں وہیں مخالفت بھی ملتی ہے۔ اس کی وجہ رشک، حسد اور عداوت ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح حضرت پیر سید مہر علیؒ شاہ صاحب کے ساتھ بھی ہوا۔ جہاں دور دراز کے اہل اسلام آپ کے لئے جان دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے وہاں اپنوں سے کچھ بھی بعید نہ تھا۔
آپ کے علمی مناظرات کو مولویت کہا گیا اور اس کو بطور طعنہ استعمال کیا گیا، استغنا کو غرور اور استغراق کو بے نیازی کیا گیا۔ مگر خدا کے فضل و کرم سے حضرت صاحبؒ نے تمام لوگوں کی غلط فہمیاں دور فرما دیں۔
حضرت صاحب نے ایک کتاب قادیانیت کے خلاف شائع کروائی، جس کا نام ’’شمس الہدیت‘‘ تھا۔ اس کتاب پر مولوی محمد ذاکر بگوی نے کچھ اعتراضات کیے۔ جب آپ عرس کے موقع پر سیال شریف گئے تو حضرت ثانیؒ نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ پیر صاحب کے سامنے اپنے اعتراضات بیان کریں اور جب انہوں نے حضرت صاحب کے سامنے اعتراضات کیے تو حضرت صاحب نے ہر اعتراض کا شافی جواب عنایت فرمایا۔
مولوی صاحب کی خوب تسلی آپ کے جواب سے ہوئی۔ انہوں نے ندامت کا اظہار کیا اور جب اگست 1900ء میں حضرت صاحبؒ لاہور مرزا قادیانی کے ساتھ بغرض مناظرہ تشریف لائے تو مولوی صاحب بھی دیگر علمائے کرام کے ساتھ آپ کے ہمرکاب تھے۔
جان لینے کی کوشش:ایک مرتبہ آپ کے مخالفین نے ایک پیشہ ور قاتل کو آپ کی جان لینے کے لئے مقرر کیا۔ وہ پیشہ ور قاتل ایک خنجر لے کر آپ کے پلنگ کے نیچے چھپ گیا۔ آپؒ حسب معمول بعد از عشاء پلنگ پر آکر لیٹ گئے۔ مگر اس پیشہ ور قاتل کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ رات کسی وقت اتفاق سے کروٹ بدلتے ہوئے آپ کا بازو اس کو لگ گیا۔ جس پر وہ خوف زدہ ہو کر بھاگ اٹھا۔ کچھ عرصہ بعد وہ کسی مقدمہ میں ملوث ہوکر گرفتار ہوا۔ اس وقت اس نے اس واقعہ کا اقرار کیا اور کہا کہ جس مقدمہ میں مجھے گرفتار کیا گیا ہے، اس میں تو میں بالکل بے قصور ہوں، مگر حضرت صاحبؒ پر اقدام قتل کا البتہ میں ضرور گنہگار ہوں۔
اس حملہ کی ناکامی کے بعد اب ایک دوسرے شخص کو حضرت صاحبؒ پر مامور کیا گیا۔ جب آپ درخت کے نیچے چار پائی پر استراحت فرما رہے تھے کہ ایک شخص ننگی تلوار لیے چلا آرہا ہے۔ حضرت صاحبؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ ایک شخص تلوار لیے چلا آرہا ہے تو میں نے سوچا کہ اب اس سر کا خدا ہی حافظ ہے۔ اس نے تلوار اٹھائی، مگر اس کا وار مجھ پر نہ پڑا۔ میں نے اس کو کہا بھئی اپنا کام کیوں نہیں کرتے ہو۔ یہ سن کر اس نے تلوار پھینک دی اور میرے قدموں سے لپٹ کر گڑ گڑانے لگا۔پیشہ ور قاتلوں سے جب نا امیدی ہوگئی تو مخالفین نے دوسرا طریقہ استعمال کرنے کا سوچا۔ اس مرتبہ ایک شخص ساگ پکا کر اس میں زہر شامل کرکے لایا۔ آپ کو شبہ تو ہوگیا، مگر اس کی دلجوئی کی خاطر دو تین لقمے کھا لیے۔ جس کا اثر تھوڑا سا طبیعت پر ہوا بھی۔ حضرت صاحبؒ فرماتے ہیں کہ’’مجھے شک تو ہوگیا تھا کہ اس میں زہر ہے، لیکن اگر نہ کھاتا تو وہ لوگ شرمندہ ہو جاتے۔ نیز ان کے ارادوں اور پیہم اقدامات سے زندگی ہیچ نظر آنے لگی تھی۔ پھر یہ خیال بھی آیا کہ موت کا وقت مقرر ہے۔ اگر تقدیر میں ابھی موت نہیں ہے تو اس زہر کا اثر بھی نہیں ہوگا۔‘‘ولی کامل کی یہی شان ہوتی ہے۔ اس کا جینا اور مرنا سب خدا کے لئے ہوتا ہے۔ سچ ہے کہ خدا کے دوستوں کو نہ تو کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی خوف۔ ان کی زندگیاں خدا کی محبت سے عبارت ہوتیں ہیں اور ان کو زندگی کے کسی بھی حصے میں موت سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post