امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ذہنی توازن کے بارے میں عالمی رائے عامہ اچھی نہیں ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ انسان کا چہرہ اس کے باطن اور کردار کی بہت حد تک صحیح عکاسی کردیتا ہے۔ ماہرین نفسیات تو کسی شخص کے چہرے پر موجود خدوخال، اتار چڑھاؤ اور تاثرات کو دیکھ کر اس کے کردار کے بارے میں درست پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ گزشتہ انتخابات میں صدارتی امیدوار بنے تو ان کی حرکات و سکنات اور خطاب کے انداز کو دیکھ کر امریکی باشندوں سمیت ساری دنیا کا خیال تھا کہ وہ امریکا جیسی واحد عالمی سپر پاور کے صدر منتخب نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ وہ اس منصب کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے۔ ان کے مقابلے پر ہلیری کلنٹن صدارتی امیدوار تھیں، جو امریکا کی وزیر خارجہ رہنے کے علاوہ بھی ہمیشہ ملکی سیاست میں بڑی فعال رہیں۔ عالمی امور میں ان کے مشاہدات و تجربات کے باعث قوی امکان تھا کہ وہ امریکا کی آئندہ صدر ہوں گی۔ لیکن نہ جانے کن عوامل نے آخر میں امریکا کے صدارتی انتخاب کو ہائی جیک کرلیا اور ڈونالڈ ٹرمپ کامیاب ہوگئے۔ ایک خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ امریکی باشندے خواہ کتنے ہی آزاد، روشن خیال اور حقوق نسواں کے زبردست علمبردار کیوں نہ ہوں، وہ عورت کی حکمرانی برداشت نہیں کر سکتے۔ دوسرا بڑا عامل روس کو بتایا جاتا ہے، جس کے بعض حکومتی اور بااثر حلقوں نے کمپیوٹر اور ذرائع ابلاغ و مواصلات کی مدد سے اپنی خصوصی تیکنیکی مہارتیں استعمال کرکے امریکی انتخابات کے نتائج تبدیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا، جس پر آج تک امریکا کے مختلف حلقوں میں بحث جاری ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یوں تو آئے دن اپنی محدود ذہنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے عالمی برادری کے لئے تفریح طبع کا سامان فراہم کرتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ انہوں نے سعودی عرب پر خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے نہایت مضحکہ خیز بیان دیا ہے کہ ناصرف سعودی بادشاہت امریکی فوج کے دم سے قائم ہے، بلکہ مملکت سعودی عرب کا محافظ بھی امریکا ہی ہے۔ امریکی ریاست مسیسی کے شہر ساؤتھ ہیون میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان پر واضح کر چکا ہوں کہ ان کی بادشاہت امریکی فوج کی وجہ سے قائم ہے۔ اسے اگر یہ فوجی مدد حاصل نہ ہو تو ان کی حکومت دو ہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ بقول ٹرمپ، میں نے ان سے کہا کہ بادشاہ سلامت! ہم تمہاری حفاظت کر رہے ہیں۔ اس کا تمہیں معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز سے یہ کب اور کہاں کہا اور اس کا کیا ردعمل سامنے آیا؟ دروغ برگردن ٹرمپ، اس تلخ بیان کے باوجود امریکا اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تعلقات برقرار ہیں اور وہ آج بھی ایک دوسرے کے اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔
سعودی عرب دنیا بھر میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ امریکا بھی بڑی مقدار میں سعودی تیل کا خریدار ہے۔ جواباً امریکا اسے بہت اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ صدر ڈونالڈ کا یہ کہنا کہ سعودی عرب سمیت اوپیک ممالک تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پوری دنیا کو لوٹ رہے ہیں، جبکہ امریکا ان میں بیشتر ممالک کا بلاوجہ دفاع کر رہا ہے۔ اس کے بدلے وہ مہنگا تیل بیچ کر ہم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت چار سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور سعودی عرب پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے لئے امریکا مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک تاجر ہیں، لہٰذا ان کا ذہن نفع و نقصان سے آگے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اسلام اور مسلمانوں سے اپنی واضح اور اعلان کردہ دشمنی کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوگئے تو سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی زبردست تعریف کی۔ اس منافقت کا واضح مقصد یہ تھا کہ سعودی عرب سے سستا تیل خرید کر اسے مہنگا اسلحہ فروخت کیا جائے۔ ایران کے خلاف امریکی گھیرا تنگ ہونے اور اس سے تیل خریدنے والے ممالک پر پابندیوں کی وجہ سے ماہرین کو اندیشہ ہے کہ تیل کی کم پیداوار اور قلیل فراہمی کے باعث اس کی قیمت سو ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی تناظر میں تاجرانہ ذہنیت کے حامل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور اس کے حکمرانوں کے خلاف بیان بازی کی ہے، جس کا ردعمل سرکاری طور پر اب تک سامنے نہیں آیا ہے، جس پر سعودی باشندے بڑی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے ٹوئٹر پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان پر شدید تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت یمن جنگ میں امریکی حمایت برقرار رکھنے کے لئے طویل عرصے تک صدر ٹرمپ کا توہین آمیز رویہ برداشت کر سکتی ہے۔ البتہ امریکی صدر کا یہ بیان کہ سعودی بادشاہت اور مملکت کا محافظ امریکا ہے اور وہ امریکی فوج کے دم سے قائم ہیں، اس قدر تکبر آمیز ہے کہ شاید اس کی سزا انہیں جلد ہی بھگتنی پڑے۔ اللہ کو انسانی تکبر سے زیادہ کوئی فعل ناپسند نہیں، اسی تکبر نے ایک عبادت گزار جن عزازیل کو ابلیس لعین کے مرتبے پر پہنچا کر تا قیامت مسترد و مردود قرار دے رکھا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ افغان جنگ کی وجہ سے امریکا شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ وہ چین کا سب سے زیادہ مقروض ہے تو تیل کے لئے اس کا بیشتر انحصار سعودی عرب پر ہے۔ جہاں معمولی فوج اور اسلحہ رکھ کر وہ بھاری معاوضے کا طالب ہے۔ بالفرض اسے اپنے محافظ فوجیوں کا معاوضہ نہیں ملتا تب بھی وہ یقیناً سستے سعودی تیل اور مہنگے امریکی اسلحے کے ذریعے بہت کچھ حاصل کرلیتا ہوگا۔ اس کے علاوہ سعودی اور خلیجی ممالک کی بے پناہ دولت امریکی بینکوں میں جمع ہے جو امریکا کی معیشت کو زبردست سہارا دیئے ہوئے ہے۔ صدر ٹرمپ کی حالیہ دھمکیوں پر سعودی حکمرانوں کی پراسرار خاموشی کے پیچھے یہی حکمت کار فرما ہوسکتی ہے کہ انہوں نے امریکی صدر کو یہ دولت نکالنے کی جوابی دھمکی دے دی ہو۔٭
٭٭٭٭٭
Prev Post