حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

0

سید ارتضی علی کرمانی
آپؒ پر دشمنوں کے قاتلانہ حملے بھی ناکام ہوگئے، کھانے میں زہر کا بھی حربہ ناکام ہوگیا تو اب مخالفین نے حضرت صاحبؒ پر جادو کروانے کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں سری نگر سے ایک برہمن پنڈت سے جادو کروایا گیا۔
اس جادو کے اثر سے آپؒ سخت بیمار ہوگئے اور بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے۔ آپ پر بے حسی طاری ہونے لگی۔ یوں ہی ایک ماہ گزر گیا۔ اب اس دشمن کی خوشی دیدنی تھی۔ مارے خوشی کے وہ دیوانہ وار یہ کہتا پھرتا تھا کہ کشمیری پنڈت نے سردھڑ کی بازی لگا دی ہے۔ صرف دس دن باقی رہ گئے ہیں۔ ان کا تو کام ہی تمام ہو جائے گا اور اگر ان کا کام تمام نہ ہوا پنڈت کہتا ہے کہ وہ خود ختم ہو جائے گا۔
اس کی یہ باتیں مولانا محبوب عالمؒ نے بھی سنیں۔ آپؒ نے حضرت صاحبؒ کے کان میں زور سے کہا کہ آپ پر ایک کشمیری پنڈت نے جادو کر کے معمولات دریا میں بہا دیئے ہیں اور مخالفین بغلیں بجا رہے ہیں۔ مولانا صاحب یہ کہہ کر رونے لگے۔ انہی کا کہنا ہے کہ میرا اس طرح رونا تھا کہ حضرت صاحب فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ
’’میں سمجھ رہا تھا کہ مرض کا آزار ہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے مہمان بن کر آیا ہے۔ کافر کا جادو مجھے نہیں مار سکتا۔ جاؤ تسلی رکھو۔‘‘
اس کے بعد حضرت صاحبؒ تیزی سے رو بصحت ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ جب اس پنڈت کو حضرت صاحبؒ کی اچانک صحت یابی کی اطلاع ملی تو وہ بھاگم بھاگ حضرت حیدر شاہ جلالپوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گڑگڑا کر فریاد کرنے لگا کہ حضرت صاحبؒ سے معافی دلوا دیں۔ یا پھر آپ خود نظرکرم عطا فرمائیں۔ مگر حضرت حیدر شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’تم نے ہمارے گوہر شب چراغ کو ضائع کرنا چاہا تھا۔ ہمارے پاس تو تمہارے لئے صرف پھٹکار ہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘
یہ صاف جواب سن کر پنڈت واپس سری نگر چلا گیا۔ جس کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اپنے سحر کی ناکامی کے رد عمل (رجعت) سے ہلاک ہو گیا۔ جبکہ جادو کرانے والا بھی کچھ عرصہ زندہ رہنے کے بعد شرمندگی لئے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ مگر ولی کامل نے ہزارہا مرتبہ پوچھنے کے باوجود اس شخص کا نام نہیں لیا۔ میرے خیال میں آپ نے اس شخص کو اس لئے عیاں نہیں کیا، کیونکہ اس طرح اس کا خاندان اور آنے والی نسلیں بھی لوگوں سے شرمندہ ہی رہتیں۔ چنانچہ حضرت صاحب نے باوجود علم ہونے کے اس شخص کا نام کسی پر ظاہر نہ فرمایا اور یوں جادو کرانے والا اپنی لگائی ہوئی آگ میں خود ہی جل کر خاکستر ہوگیا اور حضرت صاحبؒ کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
عقیدت:
گزشتہ صفحات میں آپ نے چند واقعات حضرت صاحبؒ کی مخالفت اور مخالفت بھی زبانی کلامی نہیں، بلکہ جان تک لینے کی کوشش والی مخالفت کے بارے میں ملاحظہ فرمائے ہیں۔ اب آپ کی خدمت میں چند واقعات حضرت صاحبؒ کی عقیدت کے پیش کئے جا رہے ہیں۔
دوران سفر بحری جہاز 1307ھ میں ایک مکرانی مولوی صاحب نے ندائے غائبانہ پر اعتراض کر ڈالا۔ جب آپ کو اس اعتراض کی بابت بتایا گیا تو حضرت صاحبؒ نے اس کو درست، بلکہ جائز قرار دیا۔ اب مکرانی مولوی صاحب نے حضرت صاحبؒ سے اس کے درست ہونے کا ثبوت مانگا۔ تو آپ نے فرمایا کہ ’’حدیث بخاری‘‘ تب مولوی
صاحب کہنے لگے کہ حاجی مولانا رحمت اللہ مہاجر مکیؒ صاحب تیس سال سے بخاری شریف کا درس دے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسی ندائے غائبانہ کو مانا جائز قرار دیا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ حاجی صاحب بھی ہمارے طرح ایک انسان ہیں۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ کیا آپ ان کے سامنے یہ فقرہ کہہ سکیں گے۔ فرمایا ہاں کیوں نہیں۔
حاجی مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی صاحب ان دنوں مدرسہ صولتیہ کے صدر مدرس تھے اور یہ سال ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔ کیونکہ 1308ھ میں آپ نے وصال فرمایا۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت صاحبؒ تو عبادات میں مشغول ہوگئے، جبکہ وہ مولوی صاحب پریشان کہ کب حاجی صاحب سے شکایت کی جائے۔ آخر ایک روز موقع پاکر حاجی صاحب سے اس گفتگو کا ذکر کیا۔ حاجی صاحب کہنے لگے کہ اچھا اب اگر وہ صاحب آپ کو ملیں تو انہیں لے آنا۔ ان کے دلائل سنیں گے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More